جرمن الیکشن ، بریانی اور قیمے والے نان


گزشتہ سال 24 ستمبر کو جرمنی میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس دوران، میں یہاں کے ایک انتہائی خوبصورت شہر کولون میں رہائش پذیر تھا۔ الیکشن سے تین چار روز قبل معلوم ہوا کہ یہاں کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ” ایس پی ڈی” کے سربراہ مارٹن شولز انتخابی جلسے میں شرکت کیلئے اس شہر کا رخ کر رہے ہیں۔ لو جی میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ چلو کچھ شغل میلہ دیکھنے کو ملے گا۔

جلسے والے دن میں اپنے فلیٹ سے پیدل روانہ ہوا تاکہ راستے میں پو سٹرز اور بینرز کا جائزہ لے سکوں۔ خلاف توقع یہاں اکا دکا بینر لگے ہوئے تھے اور ان پر بھی فقط پارٹی لیڈر کی تصویر تھی۔ کسی امیدوار یا لوکل ورکر کا تو نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس وقت یہ قوم مجھے انتہائی کنجوس اور انکی جمہوریت بہت سادہ محسوس ہوئی۔ دل ہی دل میں خیال آیا کاش یہ لوگ ہمارے ملک میں رنگین پوسٹرز اور بنیرز کا مشاہدہ کرتے، جہاں لیڈر اور امیدوار دونوں کو اہل و عیال سمیت ایک ہی پوسٹر میں برائٹ اور وائٹ کلر کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں زیادہ تر بینرز پر تصاویر ایک ہی پوز میں ہوتی ہیں۔ ھمارے ہاں تو صرف فرنٹ کے لئے پانچ مختلف پوز دستیاب ہیں اور بیک کے لئے علیحدہ۔ ہر امیدوار اپنے طبعیت کے عین مطابق پوز کا انتخاب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی امیدوار کو قوم کی بہت زیادہ فکر لاحق ہو تو علامہ اقبال لیکن اگر اسکی تقریر میں جوش کا عنصر پایا جاتا ہو تو بھٹو کی تقریر والا پوز موزوں رہتا ہے۔ مصیبتوں میں دلاسہ دلانے والا ہو تو بھارتی اداکار عامر خان کی فلم تھری ایڈیٹس کا ” آل از ول پوز ” جبکہ اسکے برعکس امیدوار ا گر جیل کی صعوبتیں برداشت کر کے آیا ہو تو انگلیوں سے وکٹری کا نشان تصویر کا لازمی جز ہوتا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار شکرانے کے طور پر مونا لیزوی مسکراہٹ کے ساتھ سیلوٹ والے پوز کو ہمشہ ترجیح دیتے ہیں۔ جناب یہ تو تھے صرف فرنٹ پوز،’ بیک ‘ کا عمومی طور پر ایک ہی سٹائل ہوتا ہے جہاں امیدوار عظیم و شان جلسے سے خطاب میں مصروف ہوتے ہیں اور فوٹو بالکل کان کے پاس سے لی جاتی ہے۔ حلقے کی کل آبادی بیشک ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو تصویر میں امیدوار لاکھوں کے مجمعےسے خطاب کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اب آپ کہیں گے یہ فوٹو شاپ کا کمال ہے تو قبلہ یاد دلاتا چلوں، ھمارے ہاں الیکشن میں خدائی مخلوق کے ساتھ ساتھ خلایئ مخلوق بھی بھر پورانداز میں شرکت کرتی ہے۔

Martin Schulz

ابھی میں انہی خیالات میں گم تھا کہ جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ چونکہ یورپ کے لوگ امن پسند ہیں لہذا خونریز نعروں جیسے ” مارٹن ترے جان نثار۔… بے شمار بے شمار” کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ البتہ موسیقی اور کنسرٹ کی شوقین اس قوم سے “جب آئے گا مارٹن….. تو ہو جائے گی ٹن ٹنا ٹن ٹن “جیسے نفیس نعروں کی امید یقیناً تھی۔ لیکن لوگ نعروں سے زیادہ تقریر سننے میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ خیر مارٹن صاحب نے اپنے مقررہ وقت پر تقریر شروع کی۔ اس قدر نرم اور شائستہ انداز سے بات کر رہے تھے کہ ایک لمحے کیلئے مجھے محسوس ہوا جیسے موصوف ابھی تک ‘سنگل’ یعنی غیر شادی شدہ ہیں۔ ھمارے ہاں تو سیاستدانوں کی تقریر میں موجود بارودی مواد سے آپ انکی شادیوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نواز شریف کا نرم اور بے انتہا محتاط انداز اس شوہر کی مانند ہے جو بیگم کے سامنے دوسری عورت کا ذکر کرنے سے پہلے بھی ہزار بار سوچتا ہے۔ عمران خان کے پرجوش اور گرجتے انداز سے تین جبکہ شہباز شریف کا دوران تقریر مائیک پر تشدد سے مبینہ 4 شادیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دونوں حضرات مختلف محاذوں پر گھریلو جھگڑوں کی بھڑاس مخالف پارٹی پر گولہ باری کی صورت میں نکال دیتے ہیں۔ لیکن جناب آصف علی زرداری صاحب کی خاص مسکراہٹ اورعوام کی طرف پھینکی جانی والی ہوائی چومیوں سے پتا چلتا ہے کہ موصوف آجکل پھر سے سنگل ہیں اور شیخ رشید کی چٹکلوں بھری تقریر تو سنگل سے بھی دو ہاتھ آگے نکلنے کا اشارہ دیتی ہے۔

جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے لہذا توقع تھی کہ جلسوں میں پکائی جانے والی بریانی، بوٹیوں اور نان قیمے سے بھرپور ہونگے۔ چلو نان نہ سہی کم از کم قیمے والا پیزہ ہی مل جائے تو بھی چلے گا۔ کیونکہ 5 سال لاہور میں گزارنے کے بعد کمبخت سوچ بریانی سے شروع ہو کر قیمے والے نان پر ختم ہوتی ہے۔ لہذا مفت کھانے کی تلاش میں “ڈانکے ڈانکے” کا ورد کرتے ہوئے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ ” ڈانکے” جرمن زبان میں “شکریہ” کو کہتے ہیں۔ حسن اخلاق کا تقاضا یہی تھا کہ جو لوگ راستہ دے رہے تھے انکا شکریہ ادا کرتا اور حسن اتفاق یہ تھا کہ لفظ ڈانکے انگریزی زبان میں اس چار پاؤں والے جانور کے نام سے تھوڑی بہت مماثلت رکھتا ہے جسکا الیکشن سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جی ہاں میرا اشارہ گدھے کی طرف ہے جو امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ دوست ملک چین میں خوراک کے طور پر اسکا گوشت استعمال کیا جاتا ہے اور ھمارے ہاں فقط محنت والے کام جیسے نقل و حمل یعنی ٹرانسپورٹیشن اور وزن اٹھانے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ البتہ کھبی کبھار لات مارنے کی اصطلاح بھی اسکے ساتھ منسلک کی جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ھمارے ہاں بریانی اور قیمے والے نانوں میں صرف حلال گوشت کا ہی استعمال ہوتا ہے لیکن تمام پارٹیوں کے نعروں، منشور اور داعووں میں اس محنتی جانور کی خوبیوں کی تھوڑی بہت جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ مثلاّ اگر آپ کسی ن لیگ کے ووٹر سے دریافت کریں گے کہ انکی پارٹی نے سب سے زیادہ کس شعبے میں کام کیا ہے؟ تو برجستہ جواب ملے گا ” ٹرانسپورٹیشن”۔ ” ایک زرداری سب پر بھاری ” میں لفظ “بھاری” کا ” وزن” اٹھانے سے براہ راست تعلق ہے۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ اب جب انکی حکومت آ ہی گئی ہے تو سب چوروں اور ڈاکوں کو ” لآت ” مار کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ یہاں لفظ “لآت” غور طلب ہے۔ حالانکہ لآت کے بغیر بھی یہ کام سرانجام دیا جا سکتا ہے.
اس جلسے میں کھانا تو دور کی بات، پانی کی بوتل بھی نصیب نہ ہوئی۔ مایوس ہو کر واپس اپنے کمرے کا رخ کیا اور فیس بک پر کالاباغ ڈیم بنانے کی ٹھان لی۔ الیکشن نتائج آنے پر معلوم ہوا کہ مارٹن صاحب کی پارٹی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ کہ جمہوریت کا ” حسن ” اختلاف رائے سے زیادہ بریانی کی بوٹیوں اور قیمے والے نان میں مخفی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).