مودی جی کے گرو جی آزاد کیوں گھوم رہے ہیں؟


ہمارے لوک پریہ وزیراعظم نریندر مودی جی کے ایک گرو ہیں سنبھا جی بھیڑے عرف گروجی۔ ویرپن کی طرح گھنی مونچھیں رکھنے والے یہ مہاراج کئی ’کرامات‘ کے مالک ہیں۔ ان کی پہلی کرامت تو یہ ہے کہ یہ پولیس کو نظر نہیں آتے ہرچند کہ سامنے ہی ہوتے ہیں۔ ان کی دوسری کرامت یہ ہے کہ ان کے باغ کا آم کھانے سے خواتین حاملہ ہوجاتی ہیں اور صرف نر پیدا کرتی ہیں، ان کی تیسری کرامت یہ ہے کہ انہوں نے ایٹمی سائنس سے ایم ایس سی کیا ہوا ہے لیکن کمال ہے جو سائنس ان کا کچھ بگاڑ سکی ہو۔ ان کی چوتھی کرامت کا مجھے علم نہیں لیکن سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ یہ ہمارے 56 انچی وزیراعظم نریندر مودی جی کے گروجی ہیں۔

یہ شور و شر، فتنہ و فساد اور قتل و غارت مچاتے ہیں تو کوئی چرچا نہیں ہوتا ایسے ہی جیسے نریندر مودی کے زمانے میں 2002 میں ایک قتل عام ہوا تھا اور ان کا کوئی قاتل نہیں تھا، ساری لاشیں آسمان سے ٹپکی تھیں اور زمین کھا گئی تھی۔ مودی جی کے گروجی کی تصویر کو اگر آپ آنکھ بند کرکے دور سے دیکھیں گے تو اس میں آپ کو مہاتما گاندھی کی شبیہ نظر آئے گی۔ اکہرے بدن کا منحنی سا 80 سالہ بڈھا جو ملک میں ہندوتوا کی سرفرازی کے لئے سوکھ کر کانٹا ہوا جا رہا ہے۔ یہ تو سادگی کے معاملے میں گاندھی جی سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ گاندھی جی تو لکڑی کے کھڑاؤں پہنتے تھے یہ تو وہ بھی نہیں پہنتے۔ وضع قطع، رکھ رکھاؤ اور طرز حیات سے یوں لگتا ہے کہ گاندھی جی کی شخصیت کا اثر ان کی زندگی پر کچھ زیادہ پڑگیا ہے اور دماغ اس اضافی عظمت کا بوجھ برداشت کرنے سےعاجز آ گیا ہے۔

موصوف کے اندرسادگی، کفایت شعاری، دیش بھکتی اور جاں نثاری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لیکن یہ گاندھی جی کی طرح امن پسند نہیں ہیں اور نہ ہی امن بحالی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ستیہ گرہ وغیرہ کرتے ہیں، نفرت اور تشدد کو دیش بھکتی کا نیا بیانیہ اور وقت کی شدیدترین ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ وہی ہرزہ خیز بیانیہ ہے جس کا متن گرو گولوالکر، ہیڈگیوار اور ویرساورکر نے تقسیم ہند سے قبل تشکیل دیا تھا کہ مسلمان ملچھ ہیں اور وہ بہ حیثیت مسلمان اس ملک میں جینے کا حق نہیں رکھتے۔

مودی جی کے لوک پریہ گروجی سنبھاجی بھڑے عرف گرو جی شکل و صورت سے ایک ان پڑھ، سادہ لوح گنوار کاشت کار نظرآتے ہیں جو دنیا سے صرف اتنا ہی سروکار رکھتا ہے کہ اس کے کھیت کی مٹی زرخیز رہے اور موسم کے مطابق پیداوار دیتی رہے لیکن یہ مہاراج اتنے گنوار نہیں ہیں جتنا کہ وہ شکل سے نظر آرہے ہیں۔ بلکہ اگر آنکھیں کھول کر بہت غور سے دیکھیں گے تو ان کی گھنی مونچھوں کے مٹ میلے بالوں میں ہندوتوا کے اظہار کی ثقافتی شاخیں نظرآئیں گی جو دلتوں کے خلاف جبر اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے عبارت ہیں۔

کہنے کو تو موصوف ملک کے رگ و ریشے میں حب الوطنی کا خون دوڑانا چاہتے ہیں لیکن دیش بھکتی کے نام پر وہ صرف اور صرف زہر پھیلا رہے ہیں۔ ان کی ایک ’ شیو پرتشٹھان ہندوستان‘ نام کی ایک تنظیم ہے جس کے مہاراشٹرمیں لاکھوں رضاکار ہیں اور یہ حسب منشاؤ مرضی جہاں کہیں بھی چاہیں کشتوں کے پشتے لگا سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کورے گاؤں بھیما میں دلتوں کے خلاف پرتشدد مظاہرے کو بطور مثال دیکھ سکتے ہیں۔ پونے میں گروجی کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کا معاملہ درج ہے لیکن وہ مخصوص سرکاری کرامت کی وجہ سے پولیس کو نظرنہیں آتے اس لئے پولس انہیں اب تک گرفتار نہیں کرسکی ہے۔

کرامت کو غلطی سے خباثت مت پڑھ لیجیے گا۔ خباثت کے جملہ حقوق صرف مسلمانوں کے نام ہیں۔ صرف مسلمان ہی خبیث ہوسکتا ہے ہندو نہیں اور اگرغلطی سےکہیں کوئی ہندو خباثت کے جملہ اوصاف سے متصف نظر آتا ہے تو اسے سماجی انحراف سمجھ کر درگزر کردیں جیسے کہ سنبھاجی بھڑے عرف گروجی ہیں یا پھر وہ تمام لوگ جو ہندوتوا کی تنفیذ و برتری کے لئے پورے ملک میں بھگوا جھنڈوں اور ہر ہر مہادیو کے نعروں کے ساتھ بارانِ وحشت و طوفان نفرت برپا کئے ہوئے ہیں یا پھر یہ کہہ کر بھی ان کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ مسلم فوبیا کاردعمل ہے اور جب تک مسلمان اس ملک میں رہیں گے اس قسم کا ردعمل وقت ضرورت سامنے آتا رہے گا۔ یہ وہ ردعمل ہے جس کے لئے کسی عمل کی ضرورت نہیں۔ سو جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ گروجی کی سب سے بڑی ’کرامت‘ یہ ہے کہ یہ سابق آر ایس ایس پرچارک مودی جی کے گرو ہیں لہٰذا نہ تو وہ اکیلے ہیں اور نہ ہی بھولے ہیں۔

دراصل وہ ایک اچھے قسم کے پاکھنڈی ہیں جو دیش بھکتی کے نام پر عیاری، مکاری اور ’جاتی واد‘ کی تجارت کررہے ہیں، گروجی کو تکثیری فضا کو مسموم کرنے کی کھلی آزادی اس لئے ملی ہوئی ہے کہ وہ مودی جی کے گرو ہیں، مہاشٹر کے وزیراعلیٰ فڈنویس ان کے معتقد ہیں اور پھر وہ کوئی غلط کام بھی تو نہیں کررہے ہیں کہ حکومتی سطح پر ان کی نکیر یا سرزنش ہو۔ بلکہ وہ بھگوا حکومت کا میمنہ اور میسرہ بن کرملک کو دلتوں اور مسلمانوں کی غلاظت سے پاک کرنے کی سعی جمیل میں مصروف ہیں، یہ وہ کام تھا جو آر ایس ایس کی حمایت یافتہ حکومت کو کرنا تھا لیکن چونکہ آئینی مجبوریاں بیچ میں حائل ہوجاتی ہیں اس لئے سماج کے ان سادہ بھکتوں کا تعاون حاصل کیا جارہا ہے اور یہ لوگ دامے درمے قدمے سخنے ملک کی فضا کو سیکولرزم کے زہر سے پاک کرنے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

ملک میں دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی تشہیری مہم جس انداز میں چلائی جارہی ہے اس کا مشاہدہ ملک نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ ماب لنچنگ ایک مخصوص کمیونٹی یا ذات کےخلاف کوئی عام واقعہ نہیں بلکہ یہ بدترین قسم کی مذہبی عصبیت کا اظہاریہ ہے اور حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس میں کچھ لوگ اچانک جمع ہوتے ہیں، کسی معصوم کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیتے ہیں، وہ معصوم کوئی بھی ہوسکتا ہے، میں بھی ہوسکتا ہوں اور آپ بھی اور اس جرم کی کوئی سزا نہیں ہے۔ خوف پیدا کرنے کے جرم کی کوئی سزا نہیں ہے۔

کانگریس کوئی گناہوں سے پاک صاف جماعت نہیں ہے لیکن کم از کم یہ ہجومی تشدد، یہ گاؤکشی، یہ ہر ہر مہادیو، یہ بھگوا جھنڈے، یہ میڈیا مانیٹرنگ اور نفرت کے اظہار پر فخر و انبساط جیسا ماحول نہیں تھا جو آج ہے۔ حکومت ان شرپسند عناصر کو لگام دینے کی کوشش نہیں کررہی ہے، مودی جی یا تو خاموش رہتے ہیں یا بے سر کی بانسری بجاتے ہوئے ایران توران کے دورے پر نکل جاتے ہیں۔
سنبھا جی بھیڑے عرف گروجی کی یاد آج بہت شدت سے اس لئے نہیں آئی ہے کہ جہاں اس آدمی کو جیل میں ہونا چاہیے تھا وہیں یہ پولیس کے سامنے دندناتا پھر رہا ہے، متنازعہ بیانات دے رہا ہےبلکہ اس لئے آئی ہے کہ مہاراشٹر میں اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ) نے بقول ہندوسنستھا، مالیگاؤں پارٹ 2 فلم ریلیز کی ہے جس میں اہم بھومیکا نبھانے والوں میں سدھنوا گوندھلیکر بھی ہے جو سنبھاجی بھڑے کی تنظیم شیوپرتشٹھان سنگٹھن کا رکن ہے۔

سنبھاجی کے لاکھوں عقیدتمند ہیں جن کواس مقصدسے اسلحوں کو استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے کہ جب ’ملک کو ضرورت پڑے‘ تو انہیں میدان کارزار میں اتاراجاسکے، میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری فوج نعوذ باللہ نامرد ہے اور وہ ملک کے دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی بلکہ یہ مفہوم اس وقت خود بخود پیدا ہوجاتا ہے جب شاکھاؤں میں نوجوانوں کواسلحہ وغیرہ کی ٹریننگ دینے کا جواز بتایا جاتا ہے کہ یہ نوجوان ضرورت پڑنے پر ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے تیارکیے جارہے ہیں، حالانکہ ملک کو ابھی ایسی کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے اور نہ ہی پڑے گی سو قومی سلامتی کے نام پر تیارکیے گئے یہ مسٹنڈے ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف تانڈو مچا رہے۔

سنبھا جی بھڑے کے معتقد خاص مسٹر فڈنویس یہ کہہ کر انہیں بچا سکتے ہیں کہ سدھنوا گوندھلیکرگرچہ شیوپرتشٹھان سنگٹھن کا رکن ہے لیکن یہ اس کا ذاتی عمل ہے تنظیم کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یا پھر طاقت کا غلط استعمال کرکے بھی انہیں ایسے ہی بچا سکتے ہیں جیسا کہ اب تک گروجی کو گرفتاری سے بچارہے ہیں، ریاست اور مرکز دونوں جگہوں پرحکومت ان کی ہے، پولیس ان کی ہےسو جو چاہیں کریں لیکن یہ سوال پیدا ہوتا رہے گا کہ یہی منطق دلتوں اور مسلمانوں کے معاملے میں منطبق کیوں نہیں کی جاتی، کسی مسلم نوجوان کی کسی ناقابل جواز سرگرمی کو پوری مسلم برادری سےکیوں منسوب کردیا جاتا ہے۔

یا پھر یہ کہ مسلمانوں کے گھروں میں بڑے تیز دھار چاقو کی موجودگی ملک کے مفاد میں نہیں جب کہ وہیں جن سنگھی جنونی کھلے عام ہتھیاروں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں، کارمیں موجود میاں بیوی اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ یہ ملک نفرت انگیزہندومسلم تفریقی سیاست سے تباہ نہیں ہوگا بلکہ انصاف کی فراہمی میں جانبداری اور تعصب کے اظہار سے ہوگا اور ہم بہ حیثیت سماج اسی طرف بڑھ رہے ہیں

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai