شاہانہ سرکاری رہائش گاہوں کا سائنسی اور ثقافتی رُوپ


پاکستان کے انتخابی معرکہ 2018 کے نتیجے میں ملک میں سب سے کامیاب اور ابھرتی ہوئی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن اہم باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں میرے لیے سب سے قابل توجہ با ت یہ تھی کہ”میرے لیے یہ شرم کی بات ہو گی کہ ایک ایسے وزیرِاعظم ہاؤس میں جاکر رہوں جو ایک بہت بڑا محل ہے۔ اب وزیرِ اعظم ہاؤس اور تمام گورنر ہاؤسز عوام کے لیے استعمال ہوں گے۔ “ ان کے اس اعلان کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا وہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے، اور مزید برآں یہ کہ ان شاہانہ رہائش گاہوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ کیا انہیں کسی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے یا کسی منافع بخش ہوٹل میں۔ کچھ اس طرح کا اعلان سابقہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی لاہور میں واقع گورنر ہاؤس کے بارے میں کیا تھا مگر اُن کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔

کسی بھی جمہوری ملک میں اور خاص طورپر ترقی پذیر مُلک میں انتخابات کا تسلی بخش طریقے سے انعقاد بڑی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک کثیر رقم درکا ہوتی ہے اور اس کے لیے درکار انتظامی امور کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصے سے ایک سیاسی بھونچال برپا تھا۔ اس لیے یہاں سیکیورٹی کے معاملات بھی خاصے مشکل اور گھمبیر تھے۔ اسی لیے فوج کی مدد لی گئی جس نے مستعدی سے اپنے فرائض ادا کیے انتخابات اختتام پذیر ہوئے اور پاکستان تحریک انصاف ایک اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری اور عمران خان وزارت عظمی کے لیے سب سے مضبوط امیدوار بن گئے۔ اس کے پیچھے اُن کی پانچ سال کی طویل جدوجہد شامل تھی۔

انتخابات کے بعد سب کو، فاتح عمران خان کی پہلی تقریر کا انتظار تھا۔ برِصغیر کے اس نئے لیڈر نے اپنی قوم سے خطاب کرنے کے لیے اپنی قومی زبان اُردو کا نتخاب کیا اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اُن کی تقریر دُنیا کے مصّدقہ نشریاتی اداروں نے، جس میں بی بی سی، سی این این اورالجزیرہ شامل تھے، براہ راست نشر کی۔ عمران خان کی تقریر کا ہر لفظ مجھے ایسے لگا کہ وہ انگوٹھی میں جڑے ہیرے کی مانند ہے کیوں کہ انہوں نے نہایت نپے تلے اور محتاط انداز سے اپنا نقطہِ نظر پیش کیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کسی سے انتقامی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور یہ کہ قانون کی نظرمیں ہر ایک برابرہوگا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ مملکتِ اسلامیہ پاکستان کو رسول پاکﷺ کے دورمیں مدینہ جیسی ریاست کے ماڈل پر استوار کیا جائے گا جہاں سب کو انصاف، روزگار اور شہری سہولیات بِلا تفریق، بِلا حسب و نسب، میسّرہوں گی۔ سیاسی جماعت کے کسی بھی سربراہ کے لیے وہ وعدے جو اس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کیے ہوتے ہیں وہ عوام کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور ان ہی کی بدولت اس کی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ اس لیے مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے وزیرِ اعظم نے اپنے پہلے خطاب میں جو بھی عہد کیا ہے وہ صدقِ دل سے کیا ہوگا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں وہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان محلات یا ان شاہی رہائش گاہوں کو کس طرح عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عام طور پرذکر ہوتا رہتا ہے کہ ان میں یونیورسٹیاں قائم کردی جائیں۔ خیال تو اچھا ہے مگر آئیے ہم دیکھیں کہ کیا اس سے بھی بہتر کوئی اور صورت ہوسکتی ہے اور دوئم، کیا عمران خان اپنے اس وعدے کو پایہء تک پہنچا سکیں گے۔

اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ عمران خان تعلیم، صحت اور مفادِ عامہ کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اعلیٰ معیارِ تعلیم کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ علمی اور اخلاقی اعتبار سے معراج کی بلندیوں کونہ چھو رہا ہو۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور نشونما کے لیے ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جن سے جدید سائنسی و معاشرتی علوم پیدا ہوکر معاشرے میں عوام تک پہنچ رہے ہوں۔ ان اداروں میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں اورتحقیقی ادارے، سائنسی میوزیم، لائبریریاں وغیرہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

یونیورسٹیوں اور کالج کی مدد سے روایتی درس وتدریس کی جاتی ہے جبکہ نوجوان نسل کی ذہنی استعداد اور فکری صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کے لیے غیر روایتی ذرائع تعلیم استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سائنس پارک، سائنسی میوزیم اور تفریحی پارک کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ دُنیا میں مثلاً امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان میں تو تقریباً ہربڑے شہرمیں ہمیں عظیم الشان نیچرل ہسٹری میوزیم، سائنس پارک، زندہ سمندری مخلوق کے عجائب گھر، فلکیاتی اجسام اور سائنس کے ایسے میوزیم ملیں گے جن میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی فلمیں دکھائی جاتی ہیں کہ دیکھنے والا اسی ماحول کا حصہ بن جاتا ہے اوراس کے سامنے معلومات کی ایک وسیع دُنیا کُھل جاتی ہے۔ ان بڑے اور وسیع وعریض نمائش گاہوں کے ذریعے بچے نت نئی معلومات حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں سوچ اورفکر کی کشادگی پیدا ہوتی ہے اور پھر انہیں اپنی درسگاہوں میں پڑھایا جانے والا نصاب آسان اور دلچسپ لگنے لگتا ہے۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سائنس کو پڑھانے کا طریقہ انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے منسلک تجربہ گاہیں انتہائی بوسیدہ اور ناقص ہیں۔ اور سب سے بڑھ کریہ مضامین پڑھانے والے اساتذہ غیرتربیت یافتہ ہیں۔ وہ طالب علموں کو پڑھانے اور رٹانے پر اپنا سارا زور صرف کردیتے ہیں جیسے سائنس نہیں بلکہ تاریخ کا مضمون پڑھایا جار ہاہو۔ اس نظام تعلیم میں پڑھتے ہوئے طلبا و طالبات کی دلچسپی بالکل مفقود ہوجاتی ہے اور بعض اوقات انہیں ان مضامین سے نفرت بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سکولوں اور کالجوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین دلچسپ انداز میں پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

گاہے گاہے اُن کو سائنس میوزیم اور عملی تجربہ گاہوں اور مشاہدہ گاہوں کی سیر کرائی جائے جہاں وہ سائنس کے بنیادی اصولوں پر مبنی ایجادات کو کام کرتے ہوئے دیکھیں اور وہ ایک قسم کے ذاتی تجربے کے احساس سے بذاتِ خود گزریں۔ اس سلسلے میں میری یہ تجویز ہے کہ گورنر ہاؤسز اور وزیرِاعظم کی شاہانہ رہائش گاہوں کو سائنسی اور ثقافتی پارک میں تبدیل کردیا جائے، جس میں ہر عمر کے بچوں کی دلچسپی اور عملی تربیت کے وسائل میسر ہوں۔ ترقی یافتہ دنیا کے تقریباً تمام اہم شہروں میں ایسے مراکز کثرت سے موجود ہیں جہاں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بڑے ساتھ آکرسائنس کے ہر شعبہ پر محیط اشیاء اور ایجادات کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

یہ سائنسی اور ثقافتی مراکز ہر طرح کی سہولیات سے مزّین ہوں ان میں بڑے بڑے ہال، لائیبریری، میوزیم اور تفریحی سہولیات بھی بدرجہ اتم موجود ہوں۔ سکول، کالج، یونیورسٹی اورانفرادی حیثیت میں والدین اپنے بچوں کے ہمراہ جوق درجوق ان میں آئیں پورا دن گزاریں اور معلومات اور علم کی ایک دنیا سمیٹ کر شام کو جب گھر لوٹیں تو اُن کو اپنا وطن پیارا لگے۔ تعمیرِ وطن کے لیے ایک نئے جذبے سے سرشار ہوکروہ گھر لوٹیں۔ دراصل تعلیم کے فروغ کے لیے پورے ملک میں ایک علمی ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس کے ہر جزوکی اپنی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ان عظیم الشان رہائش گاہوں میں بنے ہوتے ہیں سائنسی وثقافتی مراکز جو تعمیرِ وطن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نئے پاکستان کی افزائش وتکمیل میں ایک اہم پُل ثابت ہوسکتے ہیں۔

پروفیسر سعادت انور صدیقی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پروفیسر سعادت انور صدیقی

پروفیسر ڈاکٹر سعادت انور صدیقی خوارزمی سائنس سوسائٹی کے صدر ہیں

saadat-anwar-siddiqui has 2 posts and counting.See all posts by saadat-anwar-siddiqui