میں اور میرا وطن


مجھے اپنا بچپن یاد ہے جب محلے کے سب بچے مل کر کھیلتے تھے، مٹی کے گھر بناتے، مٹی گوندھ کر کھلونے تیار کرتے۔ جب کبھی کسی کا پکا گھر بنتا تو ریت کی بھری ٹرالیاں گراؤنڈ یا گلی میں اُلٹائی جاتیں تو ہم بچوں کی عید ہوتی کیوں کہ ہم رات تک اس ریت کے گھروندے بناتے، ہاتھ بھر لمبی سرنگیں بنا کر اک دوجے کے ہاتھ چھوتے اور خوش ہوتے۔ کبھی سائیکل کے ٹائر دوڑاتے تو کہیں کے کہیں نکل جاتے۔

میری ناظرے (قرآن پاک) کے لئے ساتھ والے محلے کی مسجد منتخب کی گئی کیوں کہ وہاں کا مولوی دیوبندی اور بہت سخت تھا۔ مولوی صاحب بغدادی سپارہ اور قرآن شریف سختی سے پڑھاتے تھے اور وہاں نماز کی پابندی لازمی تھی۔ اک نماز باجماعت نہ پڑھنے پہ اک چونی جرمانہ تھا اور ہمارے سارے دن کا جیب خرچ اک چونی ہی ہوتی تھی۔ محلے میں امام بارگاہ بھی تھی جس میں ماہِ محرم میں مجالِس ہوا کرتی تھیں یا جب کوئی شیعہ فوت ہوجاتا تو مجلس ہوتی۔ ہم بچے مجلس ختم ہونے اور سلام پڑھے جانے کا انتظار کرتے اور جیسے ہی سلام پڑھا جاتا تو سب بچے سوتے سے میں بھی جاگ کر امام بارگاہ کی طرف دوڑ لگاتے اور صدر دروازے کا اک طاق بند ہونے سے پہلے اندر داخل ہو جاتے۔ اور اپنی اپنی نیاز لیتے واپس نکل آتے۔ 7 اور 8 محرم پہ تو امام بارگاہ سلام پڑھے جانے سے پہلے پہنچتے کیوں کہ اس دن نیاز میں روٹی اور لذیز حلیم ہوتا۔

بعض دفع تو رمضان میں بچے اک مسجد میں روزہ افطار کرنے کے بعد اہل تشیع کی مسجد کی طرف دوڑ لگاتے کیوں کہ وہاں افطاری کچھ دیر بعد ہوتی اور انہیں دو جگہ کھانے کو مل جاتا۔ اہل سنت کی مساجد میں جلسے اور میلاد ہوتے تو ہم سب بچے درود و سلام میں سب سے آگے ہوتے اور خوب جھوم جھوم کے سلام پڑھتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی بھی میرے گھر والوں نے منع کیا ہو کہ اس مسجد یا امام بارگاہ میں نہیں جانا۔ یہ سب مسجدیں میری مسجدیں تھیں اور وہاں کے مولوی میرے استاد تھے۔

جب کوئی فوت ہوتا تو سارا شہر افسردہ ہوتا۔ جب کبھی کوئی حادثہ ہوتا تو بھی سب شہروالے دکھی ہوتے۔ رمضان کے بعد چھوٹی عید آتی ہو ہم کو نئے کپڑے، نئے جوتے اور عیدی ملتی۔ عید نماز کے بعد مسجد میں سارے محلے والے عید مل کر قبرستان کا رخ کرتے اسلام علیکم اہل القبور کہنے کے بعد فاتح پڑھتے اور دعا مانگتے۔ قبرستان میں ہی آدھے شہر سے ملاقات ہو جاتی اور سلام کہتے، گلے ملتے اور درود پڑھتے۔ اور بعد میں جن سے ملاقات نہیں ہوئی ہوتی تھی ان کو گھر گھر جا کر ملتے اور خوش ہوتے۔ ہم بچے سارا دن ملنے جلنے اور عیدی لینے والے سلسلے سے محظوظ ہوتے۔

بقر عید (بڑی عید) پہ بھی یہ ہی سلسلے ہوا کرتے تھے لیکن بڑے قبرستان کے بعد فورا قربانی کے لئے گھروں کی جانب لپکتے۔ 14 اگست ہم بچوں کی تیسری عید ہوتی۔ ہم بچے یکم اگست سے ہی جھنڈے، جھنڈیاں لگانا شروع کردیتے، 13 اگست کی رات اپنی چونیوں کو جمع کر کے سرسوں کا تیل خریدتے اور مٹی کے چراغ جلا کر چراغاں کرتے۔ 14 اگست کی صبح نماز سے فارغ ہو کر قرآن خوانی ہوتی، ملک کی سلامتی کے لئے دعائیں ہوتیں اور پڑھا ہوا قرآن شُہدا کو بخشا جاتا۔ پھر ہم بچے اسکول جاتے، وہاں پرچم کشائی ہوتی، ملی نغمیں پڑھے جاتے، تقاریری مقابلے ہوتے، فلک شگاف نعرے لگتے اور مٹھائی ملتی۔ ہر طرف اک خوشبو سی رچی بسی ہوتی، آنکھیں چمکتی رہتیں اور دل مخمور رہتے۔

آج وہ مسجدیں، امام بارگاہیں، گلی محلے اور شہر سب وہی ہیں اور ہم بچے بھی وہی ہیں لیکن اب ہم بچے نہیں رہے، سب بڑے ہوگئے۔ ہم نے سب سے پہلے مسجدیں متنازع بنائیں، پھر مولوی متنازع بنائے اور اپنی عیدیں بھی متنازع بنا بیٹھے۔ جب رہا نہیں گیا تو ہم نے گلی محلے متنازع بنائے اور پھر میں ذات پات میں بٹتے ہی چلے گئے۔ یہاں تک کہ گاؤں بٹ گئے اور اب اک حد تک شہر بھی بٹ چکے ہیں۔ صرف اک 14 اگست تھی جس پہ ہم سب اکٹھے تھے ہم نے آج اُسے بھی نہیں چھوڑا، ہم نے آج 14 اگست کو بھی متنازع بنا ڈالا۔

اپنا وطن اور اپنے لوگ بھلا کسے پیارے نہیں ہوتے؟ چلیں آئیں آگے بڑھیں اور اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے پیار کرنا سیکھیں۔ اگر ہم بچے نہیں رہے تو اپنے بچوں کو اپنا اور ان کا بچپنا واپس لوٹا دیں تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے جی سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل سکیں اور ملک میں خوشحالی لاسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).