افسرِ بالا بالا


ہمارے ایک اکبر نامی دوست زراعت سے متعلقہ ایک سرکاری محکمے میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ آپ پچھلے تیس سالوں سے یک طرفہ محبت کی طرح اپنی دانست میں محکمے کو اپنی خدمات سے مستفید کررہے ہیں۔ آپ سے ہماری ہمسائیگی بھی ہے اور دوستی بھی تقریباً ہر ہفتے ہم دو تین دوست ان کے دفتر جاتے ہیں اور شام کی چائے اکٹھے پیتے ہیں۔ ان سے ملاقات تو تقریباً ہرشام ہی ہوتی ہے۔

آپ کی شخصیت گاﺅں کے اس کچے راستے کی سی ہے جس پر گاڑی چلنے سے بے تحاشا گرد اڑتی ہے اور راہ گزاروں کو گرد سے بچنے کے لیے راستے پر مجبوراً پانی ڈالنا پڑتا ہے۔

آپ تقریباً پندرہ سال پہلے ایک میگا پروجیکٹ کے ایک سال تک کُلّی انچارج رہے۔ یہ پروجیکٹ 8سال کے عرصہ کے لیے تھالیکن ایک سال کے بعد ہی آپ نے محکمہ کے سر سے اپنی خدمات کا ہاتھ اٹھا لیا اور محکمے کو تقریباً یتیم کردیا۔ شاید آپ کو لگا ہو کہ محکمہ ان کی خدمات کا مزید اہل نہیں رہا ان کے بغیر ادارے کو کس طرح کے گوناگوں مسائل کا سامنا رہا یہ ایک طویل اور تکلیف دہ کہانی ہے۔ اسے قحط الرجال کہیے یا افراطِ ہنر کہیے کہ سرکاری محکمہ چھوڑنے کے بعد آپ کو کوئی گوہر شناس نہ ملا جسے اصل ہیرے کی پرکھ ہوتی۔ بقول فیض صاحب

جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سُخن

ہم کسے بیچنے الماس و گوھر جائیں گے

بہرحال اسے آپ کی نرم دلی اور محکمے کی خوش قسمتی ہی سمجھا جائے گا کہ آپ محکمے کی مشکلات پر ترس کھا کر ایک بار پھر اپنی خدمات ادارے کے لیے وقف کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اب آپ کو اپنے آپ کو وقف کیے بھی پندرہ سال ہوگئے ہیں لیکن اس عرصہ میں آپ نے باقاعدہ طور پر کوئی سرکاری کام سرانجام نہیں دیا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو انہیں جس کام کے لیے بھی کہا جاتا اور انہیں ذرا سا بھی شک پڑ جاتا کہ یہ کام اس ایک سالہ شانِ اکبری والے کام سے کم اہمیت کا ہے یا صرف اسی کے برابر ہے تو اس شکی بیوی کی طرح بڑی سی نہ کر دیتے جسے شوہر Weekend پر میکے جانے کے لیے کہتا ہے۔ دوسرے محکمہ کے پاس اس طرح کا کوئی کام آیا ہی نہیں جو شایانِ شانِ اکبری ہو۔ کام کے نہ ہونے سے آپ کو قطعاً کوئی ملال نہیں ۔

اب حالت یہ ہے کہ آپ خالص مسلمانوں کی طرح اپنے ایک سال کو نشاطِ ثانیہ کی طرح یاد کرتے اور سرد آھیں بھرتے۔ اس کا طریقہ انہوں نے یہ نکالا کہ دو تین ملازمین جو اس وقت ان کے ماتحت ہوتے تھے، ان کے ساتھ دن میں دو تین دفعہ چائے پیتے۔ اس کے دوران چشم تصور میں ڈیڑھ دھائی کا سفر منٹوں میں طے کرلیتے اور پھر سب مل کر ان کے مختصر سرکاری عہد شباب کو ایک ناکام عاشق کی طرح یاد کرتے اور خوب مزے لوٹتے۔ بقول شاعر

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

آپ کو اس بات کا انتہائی ملال ہے کہ پندرہ سال پہلے ان کے انجام کردہ کار ہائے نمایاں کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اس کے لیے وہ ملازمین کی کمزور یادداشت کا اکثر ماتم کرتے نظر آتے ۔ اس کی وجہ وہ فصلوں میں مضر کیمیکل کے استعمال کو گردانتے ۔ اس لیے آپ کمال ہوشیاری سے گفتگو کے دوران، اس فاسٹ باﺅلر کی طرح جو T20 کے آخری اوور میں تیز بال کی بجائے ایک دم  Slowبال پھینک دیتا ہے، اپنے عہدِ اکبری کا ذکرچھیڑ دیتے۔ گویا ، کبھی اس طرح سے بھی تلافی کی دل نے”

اب تو آپ نے بڑی محنت سے اپنے آپ کو بہت سینئر بلکہ بہت زیادہ سینئر کروا لیا ہے۔ دوسروں کے کام کے بارے میں رائے اور رہنمائی دینا آپ اپنے بنیادی فرائض منصبی میں شامل سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ جس کام میں ان کی رہنمائی شامل نہ ہو اس کام کو نہ صرف مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ بعض اوقات کو کام کرنے والے کو بھی مشکوک سمجھتے ہیں۔

انہوں نے یہ بات خود ہی طے کرلی ہے کہ ان کی ذات محکمے کے لیے Institutional Memory کا سا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا اظہار وہ صرف اپنے Juniorsسے ہی کرتے حالانکہ اہم میٹنگز میں انہیں مدعو نہیں کیا جاتا۔ لیکن آپ بلا کے خود اعتماد واقع ہوئے ہیں۔ اس بات کو آج تک آپ نے اپنی ھتک نہیں سمجھا۔ مزیدبراں Institutional Memory کو Digitalize کرنے کی ہر کوشش کو آپ اپنے خلاف ایک منظم واردات سمجھتے۔

ٹھیٹھ دیہاتی ہونے کے باعث آپ کی اردو بالخصوص انگریزی سے ایک لمبا چوڑا جٹ مع کلف زدہ پگڑی باہر نکلتا نظر آتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو اس کے ہاتھ میں ڈنڈا اور عقب میں بھینس بھی نظرآتی ہے۔ دیہاتی ماحول سے محبت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ صبح نو بجے جب آپ اپنے آپ کو دفتر کی سیٹ کے حوالے کرتے تو بڑی لگاوٹ سے کہتے کہ اب کسان چارہ کاٹ کر فارغ ہوچکے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آواز لگاتے کہ اب کسانوں کی لسی پانی کا وقت ہواچاہتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً آدھا گھنٹہ تک دیہاتی زندگی کے ایسے ایسے فوائد بتاتے کہ شہر میں رہنے والے سارا دن اپنے آپ کو شرمندہ شرمندہ محسوس کرتے۔ ایک دفعہ کسی درجہ دوئم کے ملازم نے عرض کی کہ سر آپ خود دیہات میں کیوں نہیں رہتے۔ ایک دانشوارنہ توقف کے بعد فرمایا کہ جو یہاں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر دیہاتی ماحول کو یاد کرنے کا مزہ ہے وہاں رہنے میں نہیں۔

آپ نے کمال مشقت اورشبانہ روز کی محنت سے انگلش میں زراعت کی پندرہ اصطلاحات کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ انہیں ایک خاص ترتیب سے حفظ بھی کیا۔ ایک باشعور آدمی اُن کے ذوقِ انتخابِ اصطلاحات اور دیدہ دلیری سے استعمال کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ اصطلاحات نہ صرف زراعت بلکہ زندگی کے ہر موضوع میں اس طرح برجستہ شامل ہو جاتی ہیں جیسے ہر سبزی میں آلو، مذہب میں ثواب، سیاست میں کرپشن اور دو اجنبیوں میں موسم کا موضوعِ سُخن۔ ہم نے ان اصطلاحات کے استعمال سے لوگوں کو نہ صرف متاثر بلکہ علمی اعتبار سے متاثرہ ہوتے بھی دیکھا۔ کئی لوگوں کو تو گفتگو کے دوران پانی پینے کی حاجت بھی ہوئی۔ آپ بڑے سے بڑے زراعت دان کو علمی اکھاڑے میں تیسری یا زیادہ سے زیادہ پانچویں اصطلاح میں چت کرنے کا فنِ نایاب رکھتے ہیں۔ محکمے کے پرانے ملازمین گواہ ہیں کہ تقریباً پچھلے بیس سال سے اُنہوں نے ان کی یادداشت کے زینے پر کسی نئی اصطلاح کو قدم رکھتے نہیں دیکھا۔ وسعتِ علم اور تنگیحرفِ داماں کا یہ شاندار Contrast صرف انہیں کے ہاں ملتا ہے۔

یہ بھی آپ کا طرّہ امیتاز ہے کہ ایک عام آدمی کی عام بات کو خاص انداز میں کیسے کہنا ہے۔ مثلاً بات کرنے سے پہلے عینک کو ایک علمی ادائے خاص سے اتارنا، خلا میں کچھ لمحے کے لیے گھورنا اور پھر مدبرانہ انداز میں رک رک کر بولنا ۔ آپ ایک ہی بات کو فلسفیانہ، نیم فلسفیانہ اور غیر فلسفیانہ طور پر کہنے کا ایک منفرد سلیقہ رکھتے ہیں۔

ہم حیران ہےں کہ نیوٹن حرکت کے تین قوانین مرتب کرتے وقت کتنے دن اور کتنی راتیں خلا میں گھورتا رہا ہوگا۔ ہمیں شک ہے کہ نیوٹن جیسا اوسط ذہن رکھنے والا آدمی ایسے دانشورانہ داﺅ پیچ سے نابلد ہوگا۔ ہمیں تو اس بات میں بھی انگلش کی کہاوت Ignorance is Blessing کے مطابق طالب علموں کی بھلائی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ اگر نیوٹن اس “حربہ علمی تخلیق” سے واقف ہوتا تو میٹرک میں ہمیں نیوٹن کے دو چار اور قوانین یاد کرنے پڑجاتے۔

جب کبھی آپ کو فائل پکڑ کر چلنے کا نادر موقع ملتا (کیونکہ یہاں تک نوبت بہت کم آتی ہے) تو آپ اپنے اوپر سنجیدگی کے اتنے گھنے بادل طاری کرلیتے کہ لگتا کہ اب طوفان اور بارش محکمے کی عمارت سے ٹکرانے کے بالکل قریب ہے۔ فائل پکڑ کر چلنے سے ان کی چال سے ایک خاص طرح کی بردباری جھلکتی۔ یوں لگتا کہ پاکستان کا ایٹم بم بنانے کا فارمولہ اسی فائل میں ہے۔ اپنے گاﺅں میں کھیتی باڑی سے تعلق رکھنے کے باعث آپ اپنے آپ کو نہ صرف بابا ئے زراعت سمجھتے بلکہ اکثر اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے نظر آتے۔ دنیا کی کسی بھی زرعی یونیورسٹی کی ریسرچ کے نتائج کو قبول یا رد کرنے کا انحصار آپ کے موڈ پر ہوتا ہے۔

جس طرح  میٹنگز میں انگریزوں کے سامنے انگریزی کے بخیئے آپ ادھیڑتے ہیں اس کی حالیہ تاریخ میں مثال ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ ہمارے خیال میں فرنگیوں سے برصغیر میں مسلمانوں پر دو سو سالہ حکومت کا انتقام لینے کا اس سے بہتر طریقہ ابھی تک رائج نہیں ہوسکا۔ اگر کوئی ہے تو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ پھر بھی آپ اپنی اس کارروائی کو تسلی بخش نہیں سمجھتے اور میٹنگز کے بعد خواجہ حیدر علی آتش کی طرح شکایت کرتے ہیں کہ ۔۔۔ زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

 یہ بھی آپ کی خوداعتمادی بلکہ عاجزی کی علامت ہے کہ آپ عہدے کے اعتبار سے اپنے آپ کو محکمے کے افسراعلیٰ (Director)  سے تھوڑا سا ہی کم سمجھتے ہیں۔ آپ ہمہ جہت ، ہمہ صفت، ہمہ وقت بلکہ ابنِ وقت شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنے آپ کو محکمے کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اور اپنے بغیر محکمے اور محکمے میں کام کرنے والوں کو عین ملزم سمجھتے ہیں۔ مستقبل قریب میں ایسی نوبت آسکتی ہے کہ محکمے کو آپ سے آپ کی خدمات سمیت شرف یاب ہونے کا موقع مل سکے۔

محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ
Latest posts by محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).