ایوب دربدر: پاکستان کا ہم جولی


محمد ایوب لاہور کے مال روڈ پر دھلی دھلائی، سفید رنگ، قدیم مگر شان دار باوا ڈنگا سنگھ بلڈنگ میں رہتے ہیں۔ مگر ان سے ملنا ہو تو گرد، استعمال شدہ سرنجوں اورسگریٹ کے ٹکڑوں کے درمیاں خود سے بیگانہ سوئے، میلے چکٹ، نشے کے شکار افرادسے بچتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ حنا رنگ بال، سفید شلوارقمیص پہنے، طویل قامت ایوب سیڑھیوں اور ایک لمبی راہ داری سے گزرکرایک خستہ حال کمرے کی جانب اشارہ کرکے اسے اپنا گھر قرار دیتے ہیں۔ لہجے میں لاہورکی بے تکلفی ہے، آواز میں جوانوں ایسی کھنک۔ اتوار ہے سو چھٹی ہے اور ایوب کی چارپائی اور چھوٹا سا ٹی وی سیٹ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ہفتہ کے دوسرے دنوں میں یہاں ان وکیل صاحب کے موکل بیٹھتے ہیں جن کا چیمبر ساتھ ہے۔

رات اورچھٹی کے دنوں میں کمرے کے ساتھ ساتھ برآمدہ بھی ایوب ہی کے تصرف میں ہوتا ہے جس میں رکھے برتنوں میں وہ پرندوں کو دانا دنکا ڈالتے ہیں۔ چھٹی ہی کے دن انہیں ٹھیک سے سونا نصیب ہوتا ہے۔ کیوں کہ باقی دنوں میں تو نچلی منزلوں میں قائم دکانوں کے ائرکنڈیشنرز کے باہری یونٹ ان کیلئے گرمیوں کی راتوں کو اورگرم کر دیتے ہیں۔ سو وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب دکانیں بند ہوں اور کب اپنے شور کرتے پنکھے کی ہوا میں رات کی نیند کے چند گھنٹے پائیں۔

میٹھی لسی کے بڑے گھونٹ لیتے ایوب کو اپنی پیدائش کی تاریخ یاد نہیں مگران کے مطابق وہ پاکستان کے ہم عمر نہیں تو زیادہ چھوٹے بھی نہیں۔ ہم انہیں پاکستان کے ہم جولی کہہ سکتے ہیں کیوں زندگی کا زیادہ حصہ ان پر بھی وہی بیتی جس کا تجربہ مملکت خداداد نے کیا۔ والد ہیڈ فقیریاں، منڈی بہاالدین سے تھے، والدہ لاہور کی اکبری منڈی سے جنہوں نے ایوب اور ان کے بہن بھائیوں کی پرورش بہت محنت سے کی۔ والد سے کسی نے چالیس ہزار روپے دھوکے سے اینٹھ لئے تھے، جب تک ان کی زندگی رہی اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لئے اسی کی تلاش میں رہے۔ ایوب کا اسکول استاد کی بے وجہ مارپیٹ سے چھوٹا تو والد نے کہا اب تم دنیا ہی سے سیکھو گے۔

کچھ عرصہ چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد ایک اخبار میں انک مین کی نوکری مل گئی۔ مگر انیس سو ستر میں انتخابی مہم کے دوران سانگھڑ میں ذوالفقارعلی بھٹو پر حملے کے خلاف احتجاج کی پاداش میں نکال دیا گیا۔ رائل پارک میں کچھ عرصہ جلد بندی کی۔ پھرایک اخبار میں پریس مین بھرتی ہوگئے۔ انیس سو چوہتر میں یہیں بھٹو حکومت کی جانب سے بیس صحافیوں کی گرفتاری کے خلاف سات ہفتوں پر محیط احتجاجی تحریک کا حصہ بنے۔ اس تحریک میں صحافیوں کے علاوہ فیکٹریوں کے ملازمین، بھٹوں کے مزدور اور کسان شریک تھے۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ ایوب نے بھی گرفتاری دی تو مزدوروں اور کسانوں سے قربت بڑھی، ایک طویل تعلق کی ابتدا ہوئی۔

ایوب کے ایک دوست چائے لے کر آچکے تھے۔ بسکٹ ڈبو کرکھاتے ہوئے ایوب نے اس ابتلا کے بارے میں بتایا جس کا شکار بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزدور اور ان کے بیوی بچے برے حالات میں رہتے، مزدوری بھی بہت کم ملتی۔ جب کبھی خاتون مزدور کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی، بھٹا مالک کا سوال ہوتا کہ کتورا (کتے کا نر بچہ) پیدا ہوا ہے یا کتوری (کتے کی مادہ اولاد)؟۔ زچگی کے تیسرے ہی روز اسے کام پر لوٹنا پڑتا۔ ایوب نے ان کی ترجمانی اپنے ذمہ لے لی۔ اس جدوجہد میں بھی شریک ہوئے جس کے نتیجے میں مزدوری چودہ روپے سے بڑھا کر ساڑھے بیس روپے فی ہزار اینٹ مقرر ہوئی اور پھرانیس سو بانوے میں جبری مزدوری کوغیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ اسی جدوجہد کے دوران گرفتار بھی ہوئے۔ ایوب ایک معاصر انگریز اخبار سے سے وابستہ جید صحافی مرحوم نثار عثمانی کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ اسی طرح انسانی اور صحافتی حقوق کے متحرک کارکن حسین نقی کا ذکر کرتے ہوئے بھی ممنونیت ان کے لفظوں اور لہجے سے جھلکتی ہے جن کے کہنے پر ایوب پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ساتھ انیس سو ترانوے سے وابستہ ہیں۔

کمیشن ہی کے ایک ماہ نامے جہد حق کی تقسیم کرتے گرفتار ہوئے۔ اس جریدے میں نواز شریف دور میں آئین میں مجوزہ ایک ترمیم پر تنقیدی مضمون شائع ہوا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ بیلف نے رہائی دلوائی۔ تو کیا آزادی صحافت کیلئے جدوجہد چھوڑ دی تھی ایوب نے؟ کہنے لگے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ ایشیا ویک کی اکتوبرانیس سو اٹھتر میں چھپی اپنی ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ دیگرصحافیوں کی طرح وہ بھی گرفتار ہوئے ضیاالحق کے آمرانہ دور میں۔ جیل میں پولیس نے تشدد کے ذریعے یہ منوانے کی کوشش کی کہ انہیں کسی سیاسی پارٹی نے گرفتاری دینے کے بدلے دس ہزار روپے دیئے ہیں۔ ایوب کا کہنا تھا کہ وہ اخبار میں کام کرتے ہیں اور اپنی سو روپے تنخواہ پیشگی لے کر کراچی آئے ہیں تاکہ مظاہرے میں شریک ہو سکیں۔ مگرپولیس والے مکوں اور بوٹوں سے مارتے، الٹا لٹکاتے۔ گالیاں اور دھمکیاں اس کے سوا۔ ایسے ہی دردوغم کرتے محمدایوب اب ایوب دربدر کہلاتے ہیں۔ انہی کا تذکرہ چند روز پہلے برادرم وجاہت مسعود نے اجمالاً کیا تھا۔ الوداع کہتے ہوئے ایوب کا کہنا ہے کہ ضیا دور ایک ڈرائونے خواب کی طرح اب بھی ان کے ساتھ ہے۔ شدت پسندی اور یہ ہیروئن کا نشہ اسی دور کی دین ہے۔ مدقوق جسموں والے وہ لوگ جن سے یہاں آتے ہوئے سامنا ہوا تھا اب نیم خوابیدہ ہیں، کچھ سیڑھیوں کے ساتھ سہارا لیتے ہوئے، کچھ بیٹھے بیٹھے ہچکولے کھاتے ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).