’او بھائی جلدی کرو تصویر کھینچو‘


ملک کی 15ویں قومی اسمبلی کے اراکین حلف اُٹھانے کے لیے جب ایوان میں پہنچے تو سب کے چہروں پر خوشی جھلک رہی تھی ایسے اراکین قومی اسمبلی جو گذشتہ اسمبلی میں بھی کامیاب ہوئے تھے ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے چاہیے ان کا تعلق مخالف جماعتوں سے ہی کیوں نہ ہو۔

حلف برداری کی تقریب میں اراکین ایک دوسرے سے ایسے مل رہے تھے کہ گمان کرنا بھی مشکل ہورہا تھا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ ارکان ایک دوسرے کی جماعت کی پالیسوں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نظر آئیں گے بلکہ دست و گریباں بھی ہو سکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت سے پہلے ایوان میں پہنچے اور جب تک اجلاس ختم نہیں ہوا اس وقت تک وہ ایوان میں موجود رہے۔

گذشتہ پورے پانچ سال کے دوران عمران خان شاید کبھی اتنی دیر ایوان میں موجود نہیں رہے۔

عمران خان کو ایوان تک پہنچانے کے لیے خفیہ گیٹ سے اندر لایا گیا۔ پریس گیلری میں موجود صحافیوں کا کہنا تھا کہ شاید خفیہ گیٹ سے عمران خان کو اس لیے ایوان میں لاگیا ہے کہ کہیں صحافی اُن سے یہ نہ پوچھ لیں کہ جس پارلیمنٹ پر اُنھوں نے لعنت بھیجی تھی اسی ایوان میں حلف لینے پر کیسا محسوس کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی

قومی اسمبلی کے اراکین کی حلف بردرای کے دوران جو سب سے اہم واقعات دیکھنے کو ملے جس پر شاید آنکھوں کو بھی یقین نہیں آرہا تھا ان میں ایک واقعہ تو یہ تھا کہ متوقع وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھ کر مصافحہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین آصف علی زرداری کے بارے میں جو بیانات دے چکے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ عمران خان آصف علی زرداری کو ’سندھ کی سب سے بڑی بیماری‘ قرار دے چکے ہیں۔

عمران خان جب آصف علی زرداری سے ملے تو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اراکین قومی اسمبلی نے ایوان میں موجود فوٹو گرافرز کو آواز دی کہ ’او بھائی جلدی کرو تصویر کھینچو‘۔

جس کے بعد آصف علی زرداری آگے بڑھ گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو کسی دوسرے رکن سے مل رہے تھا کہ عمران خان نے انتظار کیا اور جب وہ فارغ ہوئے تو متوقع وزیر اعظم نے بلاول بھٹو کے ساتھ ہاتھ ملایا اور تصویر کھنچوائی۔

پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے یہ منظر دیکھ کر فقرہ کسا کہ ’اب صیح معنوں میں تبدیلی آئی ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف جب ایوان میں آئے تو ان سے بھی عمران خان نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا تاہم ہاتھ ملاتے ہوئے دونوں رہنما ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا رہے تھے۔

حلف برداری کے بعد جب اراکین اسمبلی حاضری رجسٹر پر دستخط کرنے کے لیے جاتے تھے تو وہ جاتے ہوئے اپنی قیادت سے ضرور ہاتھ ملاتے تھے۔

قومی اسمبلی

پاکستان تحریک انصاف کی اراکین جب دستخط کرنے جاتے تھے تو پہلے وہ کچھ دیر عمران خان جس کرسی پر بیٹھے تھے اس کے سامنے رکتے جیسے وہ اجازت مانگ رہے ہوں کہ ’اگر اجازت دیں تو میں دستخط کر آؤں۔‘

پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے کراچی سے منتخب ہونے والے اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جب حاضری رجسٹر پر دستخط کرنے بعد عمران خان کے پاس آئے اور وہ قائد ایوان کی سیٹ پر بیٹھنے لگے تو سکیورٹی اہلکار نے آواز دی کہ ’سر یہ سیٹ آپ کے لیے نہیں ہے۔‘ جس کے بعد عامر لیاقت اپنی نشست کی جانب چلے گئے۔

حلف برداری کی تقریب میں خوشگوار حیرت اس وقت بھی ہوئی جب پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنااللہ اور پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری سمیت دیگر اراکین ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

حلف برداری کی تقریب میں عمران خان اور شہباز شریف کے علاوہ تمام اراکین کو حروف تہجی کے اعتبار سے نشستیں فراہم کی گئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp