کھیل کے میدان سے نکلنا ضروری ہے


پہلے کرپشن کی گونج تھی، پھر انتخابات کی بازگشت، اور اب نمبر گیم کی دوڑ ہے، ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ حکومت بنانے کے لئے نمبرز پورے ہوچکے ہیں“ٹوٹنے اور ملنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، گو کہ ابھی عمران خان کے باضابطہ وزیر اعظم بننے کا اعلان نہیں ہوا لیکن حالات یہی بتا تے ہیں کہ وزارت عظمی کا تاج انہی کے سر سجایا جائے گا“ متحدہ اپوزیشن بھی بضد ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو نہ بننے دیا جائے، اسی لئے گزشتہ برسوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے والے، یا یوں کہیے کہ آپس میں دست و گربیاں رہنے والے آج پھر ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جُڑ کر بیٹھے ہیں، یہ بیٹھک اے پی سی کے نام سے سجائی گئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے زیرِ اہتمام دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس پہلی بار لندن میں 7 اور 8 جولائی 2007ء کو ہوئی۔ جس کا مقصد مشترکہ اپوزیشن کا مشرف حکومت کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنا تھا، ، پیپلز پارٹی کے مشرف حکومت سے مذاکرات چل رہے تھے اس لیے صدارتی انتخاب کے موقع پر استعفوں کی تجویز پر شدید اختلاف سامنے آئے اور پیپلز پارٹی نے اس شق سے کسی صورت میں بھی اتفاق نہیں کیا۔ جس کے بعد نواز شریف نے اے آر ڈی کی جگہ پیپلز پارٹی کے بغیر ہی اپوزیشن کا نیا اتحاد قائم کیا۔ جسےآل پارٹیز ڈیموکریٹکل موومنٹ ) اے پی ڈی ایم( کا نام دیا گیا۔ جس کا مقصد صدر مشرف کو ہر حالت میں صدر بننے سے روکنا تھا، پھر اے پی سی کے نام پر کئی بار ملک کی چھوٹی بڑی جماعتیں ساتھ بیٹھیں، معاملات پر بات کی، کچھ کانفرنسس اختلافات کی نظر ہوئیں اور کچھ میں بڑی بڑی پالیسیاں مرتب کی گئیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی صرف باتیں عمل ندارد۔

اب پھر ایک اے پی سی کا انعقاد کیا گیا ہے، کیونکہ اب ضرب خو د کو لگی ہے“ ان کی راج دھانی میں کوئی اورگھس آیا ہے، برسوں کا طلسم ٹوٹنے لگا ہے، لیکن قوم کا سوال یہی ہے کہ، اپنے مفادات پر آنچ آتے ہی مل بیٹھنے والے، عوام کا نام لے کر اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے، مخالفین کے خلاف واویلا کرنے والے اور ایک عدد وائٹ پیپر جاری کرنے والے قومی سانحات پر اس تندہی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟

وزارت عظمی کے لئے عمران خان کے مقابل شہباز شریف پر متفق ہوجانے والے قوم کے مفاد میں ایک نکتے پر اتفاق کیوں نہیں کرتے؟ ہزاروں شہید ہوجانے والوں کے لئے کوئی آواز کیوں بلند نہیں کرتے؟ دہشتگردوں اور صرف کاغذوں میں محفوظ قانون کے خلاف کوئی وائٹ پیپر جاری کیوں نہیں کرتے؟ اور سب سے بڑھ کر اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے وسیع تر مفاد پر کوئی فوقیت کیوں نہیں دیتے؟ قومی مسائل کے حل کے لئے اتنی استقامت، بردباری کا ثبوت کیوں نہیں دیتے؟ کیا اے پی سی کا مقصد صرف اقتدار کے حصول کے لئے اکھٹا ہونا ہے؟ معاملات دوسری طرف بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔

کپتان کی وزیر اعظم بننے کے لئے 22 سال کی جدوجہد اب اپنی منزل پانے کے قریب ہے، اس بات سے قطع نظر کہ الیکشن میں کتنی شفافیت تھی، فیصلہ بظاہر پی ٹی آئی کے حق میں آیا ہے، عوام گھروں سے نکلے بھی اور ووٹ بھی ڈالا، عمران خان کے پاس اب اپنے کہے الفاظ ے پیچھے ہٹنے کے لیے کوئی جواز نہیں، 2 2 سال سے ان کا ایک ہی نعرہ تھاکہ موقع ملا تو وہ سب کچھ بدل دینگے، انہیں موقع مل چکا ہے، اب دیکھنا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے عمران خان کوئی پرانا بہانہ نہیں بنائیں گے“ اللہ نہ کرے کہ وہ ناکام ہوں لیکن اگر ہوئے تو اپنی ناکامی کاپرانےکے بجائے نیا جواز ضرور پیش کریں گے۔ افسوس یہ ہے کہ کشکول توڑنے اور قرضہ نہ لینے کے خواب دکھانے والے ابھی سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی باتیں کررہے ہیں، بہت حیرت ہوگی کہ اگر ہم نئے پاکستان میں پرانے طریقے سے داخل ہوں۔

عمران خان کی کامیابی اور وزارت عظمی ہر لحاظ سے تاریخی ہے لیکن اب انہیں اگر تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانا ہے تو اچھی اور مثبت کوشش کرنی ہوگی۔ انہیں 1992 میں کر کٹ کے میدان میں حاصل کی گئی فتح سے باہر نکل کر کھیلنا ہوگا کیونکہ اب انہیں صرف 11 افراد کی نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی کپتانی کرنی ہے، عمران خان کی 22 سال کی محنت، اذیت، تکلیف، جہدوجہد، کوشش، اس ذمہ داری کے آگے کچھ بھی نہیں جو انہیں وزارت عظمی کا حلف اٹھاتے ہی مل جائے گی۔

انہوں نے اپنی ثابت قدمی سے اپنے وطن میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دو جماعتی نظام کو شکست دی ہے، لیکن اب ان کے لیے چیلنج اس بین الاقوامی لابی کو شکست دینا ہے جس کے تحت پچھلی حکومتیں چلتی رہیں۔ جس کا الزام عمران خان بھی کئی بار اپنے بیانات میں لگا چکے ہیں، حکومت سے باہر رہ کر تنقید کرنا آسان ہے لیکن حکومت میں رہ کر معا ملا ت کو صحیح سمت لے جانا کمال ہے اور پوری قوم کو امید ہے کہ یہ کمال عمران خان ضرور دکھائیں گے، پوری قوم دعاگو ہے کہ عمران خان اپنے کیے وعدوں کو پورا کریں اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں کیونکہ عمران خان کے پاس پہلی بار حکومت کرنے کا ایک جواز ترپ کے پتے کی طرح ان کی جیب میں موجود ہوگا لیکن ان غیر مخلص، نا تجربہ کار سیاستدانوں کے ہاتھوں میں برسوں سے تختہ مشق بنے پاکستان کے لئے مزید تکلیف، نقصان اور عدم استحکام کا سبب ہوگا۔ اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے، آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).