مستنصر حسین تارڑ کے ناول “راکھ” بارے میں چند الفاظ


راکھ۔ وہ کتاب جس کا آخری صفحہ میں نے کچھ ہی دیر پہلے مکمل کیا اور جو افراد اِس بہترین داستان کا پہلے سے مطالعہ کر چکے ہیں وہی اِس کیفیت سے آشناء ہوں گے جو راکھ کے اختتام پہ ہو سکتی ہے۔

دیارِ غیر میں اپنے پاکستانی لکھاریوں کی کتابیں ذرا مشکل سے میسر ہوتی ہیں۔ اپنی سالگرہ کے موقع پر ایک بہت ہی پیارے دوست کی وساطت سے تارڑ صاحب کی کچھ کتابیں بطورِ تحفہ موصول ہوئیں۔ میں نے تارڑ صاحب کے کچھ سفرنامے تو پڑھ رکھے تھے لین ناول پڑھنا ابھی باقی تھے۔ عزیزم نے ہی بھی مشورہ دیا کہ جب بھی پڑھنا شروع کرو، ”راکھ“ سے ابتداء کرنا۔ چونکہ دیارِغیر میں ایک لگے بندھے ٹایم ٹیبل پہ زندگی گزرتی ہے اس لیے ایک نشست میں بیٹھ کر کتاب کا اچھا خاصا حصہ ہضم کرنے کا چسکا پورا کرنا میرے نصیب میں نا تھا۔

میں نے راکھ کو بہت دفعہ شروع کیا لیکن پڑھنے میں دھیان اور روانگی مستقل نہ ہونے کے باعث ہر چند دن کے بعد مجھے پھر ابتدائی صفحات پلٹنے پڑتے۔ خیر ایک دن مجھے کام کے سلسلے میں ملک کے دور دراذ علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے شہر سفر کرنا تھا۔ چونکہ فلائیٹ کافی لمبی تھی تو میں نے جہاذ میں بیٹھ کر سفر کی دعا پڑھنے کے بعد میں بڑے انہماک کے ساتھ ایک دفعہ پھر سے راکھ ابتداً پڑھنا شروع کی اور قریباً چار گھنٹے کی اُس فلائیٹ کے دوران شاید میں نے صرف فلائیٹ اٹینڈنٹ کو جواب دینے کے لئے سر اُٹھایا تھا۔

بہت پُراِسرار اور کنفیوز کر دینے والے لیکن نہایت دلچسپ انداز سے جب کہانی شروع ہوتی ہے تو کچھ مکالمے اور کردار بڑے عجیب محسوس ہونے کے باوجود پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اور یہ مستنصر صاحب کا ہی کمال ہے کہ وہ انتہائی پیچیدہ کرداروں کی سخت اُلجھا دینے والی کہانی میں بھی پڑھنے والے کو قید کر دیتے ہیں۔ بہرحال چار چیزیں ہیں۔ اور جب اُن چاروں چیزوں کا باقاعدہ تو نہیں لیکن دھیرے دھیرے راذ کھلنا شروع ہوا تو اِس حقیقت کے باوجود کہ جہاز کا سفر مجھے سخت ناپسند ہے، میں یہی سوچتا رہا کہ راکھ کے اختتام تک یہ سفر ختم نہ ہو۔ بہرحال ہر سفر کی طرح میرا یہ سفر تو ختم ہو گیا لیکن اب مشاہد، برگیتا، مردان اور شوبھا کے ساتھ جاری سفر آئندہ دنوں میں کافی بریکس کے دوران، سب وے سٹیشنز پراور یہاں تک کہ چیک اپ کے لئے ہسپتال آ کر بھی جاری رہا۔ جادو ہی کچھ ایسا تھا۔

مشاہد اور مردان کے کردار مجھے بُری طرح اپنے شکنجے میں لے چُکے تھے۔ کرداوں کے علاوہ تارڑ صاحب نے جس خوبصورتی سے وادیِ سوات کی چند شاموں کے مناظر کو بیان کیا ہے اُسکا جواب نہیں۔ مجھے ایک دو جگہ پررابرٹ فراسٹ کی نظم سٹاپنگ بائی دا ووڈز کی یاد آ گئی جس میں ایک مسافر رات کے پچھلے پہر کسی سفر کے ایک جھیل اور اُسکے قریب واقع جنگل کے درختوں پر گرتی برف کے دلفریب منظر میں کھو جاتا ہے۔ بہرحال میں خود راکھ میں کھو چُکا تھا۔

یہ ناول ایک کمنگ آف ایج سٹوری ہے جس کے کردار تاریخ کے سخت ترین واقعات اور ذاتی زندگی کے پیچیدہ حالات دیکھ چُکنے کے بعد ایسی الجھی اور حساس شخصیتوں میں ڈھل چُکے ہیں جو بظاہر مضبوط اور پُرسکون نظر آتے ہیں لیکن اندرونی طور پر اُن کا ماضی ایک طفیلئے کی طرح اُن سے چِپکا ہے۔ تارڑ صاحب نے جس جامع انداز سے تاریخ کے کچھ واقعات کو قلم بند کیا ہے، اُس میں وہ نزاکت اور کرختگی بیک وقت موجود ہے جو کوئی بھی حقیقت پسند اور غیر جانبدار اِنسان کسی بھی متنازعہ بحث میں ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ کچھ ایسے موضوع ہیں جِن کو بس ہلکا سا چھیڑ دینے کے بعد بھی کچھ کچھ سمجھ آنے پر بھی بہت کچھ سمجھ آ جاتا ہے۔ تاریخ کے بڑے بڑے لیکن المناک واقعات، چاہے وہ تقسیم کے موقع پر فسادات ہوں، عرب اِسائیل تنازعہ ہو، 65 کی جنگ ہو، سقوطِ ڈھاکہ ہو یا ملکی مسائیل کا عذاب ہو جیسے دہشت گردی کا نا سور، دریاؤں میں گھٹتے پانی کی تلخ اور بھیانک حقیقت ہو، قادیانیت ہو یا اسمگلنگ کا ناسور۔ غرض تارڑ صاحب کا یہ ناول ہر اُس موضوع پہ سوچنے کو مجبور کر دیتا ہے جو ہماری ساکھ اور مستقبل کے خراب ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔

راکھ کے کردار مضبوط ہیں اور بظاہر مطمئن بھی، لیکن ہر کردار کسی نا کسی طرح ایک ادھور پن اور بیقراری کی کیفیت میں ہے۔ ہر کردار کی کہانی کا پہلو چونکا دینے والا ہے اور کچھ موڑ ناصرف چونکاتے ہیں، بلکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔

اگر آپ رومانوی کہانیوں اور ٹریجڈی میں دلچسی رکھتے ہیں تو یہ کتاب ”راکھ“ آپ کے لئے ہے۔ اگر آپ میں غیر جانبدار ہو کر اپنی تاریخ پڑھنے کا حوصلہ ہے تو راکھ پڑھیے۔ اگر آپ ناسٹیلجیا کے مریض ہیں تو راکھ پڑھیے۔ اگر آپ محبِ وطن ہیں اور پاکستان کو درپیش چند نہایت خوفناک اور گھمبیر مسائیل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو بھی راکھ ہڑھیئے۔ غرض کچھ بھی ہو آپ راکھ کا مطالعہ کیجیئے۔ یہ کتاب کہیں نا کہیں سے آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا مواد رکھتی ہے۔

چار گھنٹے کی فلائیٹ میں باقاعدہ شروع کرتے ہوئے اِس کتاب کے آغاز سے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اِس کتاب کا ہر اگلہ صفحہ میری سوچ پہ اتنا گہرا اثر چھوڑے گا لیکن اختتام پہ چوتھے دن یہ ضرور پتا چل گیا تھا کہ چار مُرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).