اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس اطہر من اللہ اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی میں لمحہ بہ لمحہ مکالمہ


                                  جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف اور دیگر کی طرف سے سزا معطلی کی اپیل پر دو رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بنچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ: کیا کسی بھی پارٹی کو بنچ پر اعتراض ہے؟

خواجہ حارث: نہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمیں پورا اعتماد ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ: پہلے سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کریں گے۔ کم سزا کو پہلے سنتے ہیں،

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: اپیلیں پہلے سنی جائیں

جسٹس اطہر من اللہ: اپیل پہلے نہیں سن سکتے۔ پہلے سزا معطلی کی درخواست سنیں گے۔ اپیل اپنے نمبر پر سنی جائے گی۔ سزا معطلی میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ ہم میرٹ بھی دیکھیں گے لیکن فیصلے کی حد تک۔

خواجہ حارث: فیصلے کے میرٹ بتاؤں گا۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز: میرے مؤکل کی بریت کا کیس ہے۔ میں قانون کے تحت میرٹ پر تفصیلی دلائل دونگا

نیب کا اعتراض مسترد

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: سزا معطلی کی اپیل چھ ماہ کے بعد سنی جا سکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ: اگر آپ کی بات ٹھیک ہے تو کیا تمام ہائیکورٹس قانون کی خلاف ورزی کررہی ہیں؟ حال ہی میں مشال خان کیس میں ملزمان کی سزا معطلی درخواست منظور ہوئی۔ دس دس سال سے جو اپیلیں التوا میں ہیں، کیا ہم ان سے ناانصافی کر سکتے ہیں؟ دیگر کئی مقدمات میں ایپلیں زیر التوا ہیں ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کرسکتے۔ ہم پہلے ان اپیلوں کو ٹیک اپ کریں گے جو پہلے سے التوا میں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ: اس کیس میں ملزمان کی سزا معطلی کی درخواستیں ابھی سن لیتے ہیں۔ نواز شریف کی اپیل پہلے سن لیتے ہیں،

نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت شروع

خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں

خواجہ حارث

خواجہ حارث: اثاثوں کی ملکیت ثابت نہیں ہے۔ فرض کریں یہ جائیدادیں میری ہیں۔ اب میرے معلوم ذرائع آمدن ریکارڈ پر لائے ہی نہیں گئے۔ اب یہ کیسے معلوم ہو کہ اثاثوں میں تضادات ہیں۔ جب اثاثے ہی معلوم نہیں تو تضادات کا نتیجہ کیسے حاصل ہوا،

جسٹس اطہر من اللہ فرد جرم کیا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ اثاثوں کی قیمت نہیں بتائی گئی؟ آپ کی بات میں وزن ہے۔ اگر قیمت ریکارڈر پر آئی ہی نہیں تو ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں میں کیسے سزا ہو گئی؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: سزا نیب قانون کی شق 9 اے فائیو کے تحت ہوئی۔

خواجہ حارث: اگر نیب اثاثوں کی ملکیت اور میرے معلوم ذرائع بتا دے تو پھر بار ثبوت مجھ پر آئے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ: نیب نے کرپشن میں بریت کو چیلنج نہیں کیا؟

خواجہ حارث: جی مفروضہ یہ تھا کہ کرپشن ہوئی لیکن اس میں بریت دے دی۔

جسٹس اطہر من اللہ: نیب نے کرپشن میں بریت کو چیلنج نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ نیب نے تسلیم کرلیا کہ یہ کرپشن کی پیسے سے جائیداد نہیں بنائی گی؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: یہ معاملہ کرپشن کی ہی پریکٹس میں آتا ہے

جسٹس اطہر من اللہ: آپ نے فرد جرم کرپشن اور بے نامی دونوں معاملات میں عائد کی؟ آپ نے کرپشن میں بریت کو چیلنج نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ بدعنوانی نہیں ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: آپ کو سزا بڑھانے کا اختیار ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ: ہمیں یہاں ازخود نوٹس کا اختیار نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: ہم بدعنوانی کو ڈیل کرتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ اثاثےغیر قانونی طریقے سے بنائے گئے اس کا مطلب کرپشن ہی ہوتا ہے۔ نیب کیسز میں مشکل ہوتا ہے کہ چوری کی وہی رقم بھی بتا دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ: نیب سے پوچھیں کہ نواز شریف کی کرپشن سے بریت کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جب ایک فرد جرم میں بریت ہو جائے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے گا؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی: ریفرنس عوامی عہدیدار سے متعلق ہے۔ زائد اثاثوں کا کیس ثابت ہو گیا۔ نیب احتساب عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ: فیصلے کے مطابق جائیداد کرپشن سے نہیں بنائی گئی۔ اب کیس یہ رہ گیا ہے کہ بس ملزمان وضاحت درست نہیں دے سکے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2