71واں یوم آزادی اور داغ داغ اجالا


سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک جہاں بچھڑے ہوئے دوستوں کو ملوانے میں کارآمد ہے تو وہی وہ آپ کو اب آپ ہی کی پرانی یادیں بھی تازہ کرواتی ہے۔ ایسی ہی پچھلے سال کی ایک تصویر کی شکل میں یاد اس ہفتے میری ٹائم لائن پر آئی جس میں میں، میری اہلیہ اور ہمارا چار سالہ بیٹا ہمارے اسلام آباد والے گھر کو پاکستانی جھنڈیوں سے سجاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس تصویر کو میں نے فیس بک پر اپ لوڈ اس لئے کیا تھا تاکہ ہم اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ، جو پاکستان سے دور رہتے ہیں، یوم آزادی کی خوشیاں بانٹ سکیں۔ آج یہ تصویر ہمیں اس خوشگوار لمحے کی یاد تو دلاتی ہے لیکن ساتھ میں اس بات کا احساس بھی دلاتی ہے ہمیں بھی اپنے ملک سے دور جانا پڑا اورکیسے ہمارا گھر، خوشیاں اور پاکستان میں رینے کی آزادی ایک واقعہ کی وجہ ہم سے چھن گئیں۔

آج پاکستانی ملک بھر میں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ میں اور میری فیملی وطن سے دور ہیں اور ہم نے خوشئی سے پاکستان کو خیر باد نہیں کہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے تھے جہاں مجھے آزادی رائے کا حق تھا اور میں آزادی سے صحافت کر سکتا تھا۔

میں کس خوش فہی کا شکار تھا، اس کا احساس مجھے تب ہوا جب اس سال 10 جنوری کو مجھے اسلحہ بردار افراد نے اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی اور جب میں ان سے بھاگنے میں کامیاب ہوا تو مجھے گولی مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس واقعہ کی بعد جب میں اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال سے ملا تومجھے ان کے اس مشورے نے، کہ میں ایک اعلیٰ ریاستی عہدے دار کو خط لکھ کر معافی مانگوں، اس بات کا احساس دلایا کہ ہماری آزادی کتنی محدود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے کئی برس سے باقی صحافی دوست سمجھاتے تھے کہ میں کچھ خاص امور پر لکھتے وقت خصوصی احتیاط کروں۔ پھر مجھے نامعلوم  افراد کی طرف سے دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ 2017ء میں مجھے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔  میں اپنے آپ کو ایک آزاد ملک کا شہری سمجھتا تھا اور یہ جانتا تھا کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے، اس لئے میں نے اپنا رویہ نہیں بدلا لیکن اب یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید میری یہ سوچ کہ ” ہم پاکستان کے آزاد شہری ہیں اور ہمیں آئین میں کچھ حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے“ کچھ ایسی درست نہیں تھی۔۔۔ اوراس کی زندہ مثال میں خود تو ہوں ہی لیکن آج تمام پاکستانی صحافی،میڈیا ادارے اور سول سوسائٹی بھی شاید اس حقیقت کی گواہی دیں کہ پاکستان میں دستوری آزادیوں کی حقیقت ایک کاغذی بیان سے زیادہ نہیں۔

ذرا سوچئے کہ ہمارے پشتون بھائی اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں اور پاکستانی ذرائع ابلاغ اس کو رپورٹ بھی نہ کر سکیں۔

لاپتہ افراد کے اہل خانہ دربدر ٹھوکریں کھائیں لیکن عدلیہ ان کو انصاف دینے سے قاصر ہو؟

نصاب میں ہماری اگلی نسلوں کو تاریخ کا سچ نہ بتایا جائے؟

قریب ایک ماہ قبل سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا ملک پاکستان ایک جیل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ آج ہمارے ملک میں جس قسم کی صورت حال ہے اس میں سابق وزیر اعظم کا یہ بیان ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک کڑوی حقیقت لگتا ہے۔ اوراس پر ستم ظریفی یہ کہ نوازشریف کے ایسے بیانات نشر کرنا بھی آسان نہیں۔

آج اگر پاکستان میں کسی نے سچ تلاش کرنا ہے تو سوشل میڈیا ایک واحد آزاد ذریعہ ہے لیکن کچھ سیاست دان اس کو بھی صرف بیان بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے متوقع وزیراعظم عمران خان نے یوم آزادی کے مناسبت سے ایک ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ قوم 14 اگست بھرپور جوش و جذبے سے منائے کیونکہ “ہم نئے پاکستان کے قیام کی منزل کی جانب گامزن ہیں جس میں قائد کے خواب کو تعبیر ملے گی”۔۔۔

اگر قائد اعظم محمد علی جناح کا اپنا جاری کردہ اخبار ڈان بھی پابندیوں کا شکار ہو اور خان صاحب اس بارے میں کوئی اشارہ تک نہ کریں تو پھر ان کا یوم آزادی کا پیغام کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔

ہمیں پوری امید ہے کہ آج نہیں تو کل پاکستانی بلا خوف و خطر آزادی کی زندگی گزارسکیں گے اور وہ پاکستان جس کے لئے ہمارے آباو اجداد نے جدوجہد کی تھی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں آزادی کی زندگی گزار سکیں۔ اور ہاں جمہوری پاکستان میں مجھ جیسے آزاد خیال افراد کے لئے بھی جگہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).