پرنٹ سے الیکٹرونک میڈیا تک


\"ghaffer\"انسانی تاریخ میں کاغذ کی ایجاد سے پہلے سب کچھ انسانی ذہن میں محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اچھی یاد داشت والے عالم فاضل بن جاتے اور درمیانے یا کمزور درجے کی یادداشت والے ان تیز یاد داشت والوں کے علم کے محتاج رہتے۔ مگر کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ سہولت پیدا ہو گئی کہ علم و ادب اور فراست و ذہانت اور حکمت کی باتیں ہر وقت ہر کسی کو میسر آ گئیں۔ کتاب کے صفحات پر تحریر کی کچھ حدودو قیود تھیں، سب کچھ ایک ضابطے کے تحت کتاب کے صفحات پر لکھ دینا قوت اظہار اور اختیارِ زبان کا محتاج رہتا۔ اس مرحلے پروہ لوگ کہ جنہیں زبان و بیان پر دسترس تھی، وہ عالم فاضل کہلانے لگے اور ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کے شاگرد یا علم کے متلاشی اپنی پیاس بجھانے لگے ۔پہلے کہا جاتا تھا کہ علم حاصل کرنے کے لیے کنویں کے پاس جانا پڑتا ہے، کتاب کی اشاعت کے بعد تو علم و ہنر کے یہ کنویں ہر فرد کے پاس آنے لگے بل کہ مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے۔ تاریخ کے اس مرحلے نے انسانی تہذیب وتمدن اور علم و فن کی ترسیل میں نہایت نمایاں کردار ادا کیا۔ علم حاصل کرنے کی رفتار میں اضافہ ہو گیا۔ اسی دور میں متن، ماتن کا قضیہ پیدا ہوا کہ جب یہ کہا گیا کہ متن کے بعد ماتن مر جاتا ہے اور متن کا قاری کے ساتھ رابطہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اب یہ قاری کی علمی و ادبی اپج اور صلاحیت ہے کہ اس متن سے وہ کیا کچھ اخذ کرتا ہے، کیا سمت اختیار کرتا ہے۔اس حوالے سے مذہبی کتابوں اور ان کے متن پر نہایت حساس انداز سے بات ہوئی۔اور کئی اختلافات بھی پیدا ہوئے، کئی مشکلات بھی سامنے آئیں۔

علم وحکمت اور دانائی کی باتوں کو کتابی صورت میں لانے سے ہماری صدیوں کی حکمت اور دانائی محفوظ ہوگئی کہ جو نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہی تھی۔ اس میں کئی فنون بھی شامل ہیں کہ جن کی مہارت چند خاندانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی کہ وہ لوگ اسے بھی اپنا خاندانی ورثہ سمجھنے لگے تھے اور خاندانی ورثہ جب تک وقف قرار نہیں پاتا، اس سے دوسرے لوگ مستفید نہیں ہو سکتے۔ صدیوں کے تجربات پر مبنی ایسے کئی علوم اس وجہ سے ضایع ہو گئے کہ اس کے ماہرین اپنے سینے میں دفن کر کے اسے ساتھ ہی قبروں میں لے اترے۔ انسانی زندگی میں وہ وقت بہت اہمیت اختیار کر گیا کہ جب روزمرہ کی باتوں ، خبروں، سیاست اور سماج سے جڑے معاملات سے آگاہی لازم ٹھہری۔ یہ بادشاہت کے بعد کا دور ہے کہ جب خبر کی اہمیت پیدا ہوئی۔ جمہوری ادوار میں اس رویے نے تیزی پکڑی اس لیے کہ اب اختیار، حکومت، کاروبار، زمین داری، صنعت کاری صرف چند خاندانوں تک محدود نہ تھی۔ کوئی شخص بھی حکمران، صنعت کار، بزنس مین ہو سکتا تھا۔اس بدلتی ہوئی سماجی صورت حال میں خبر، اخبار اور رسائل کے وجود کو جنم دیا۔ یہ قصہ کوئی زیادہ پرانا نہیں ہے۔ اس نئے شعبہ کو پرنٹ میڈیا کا نام دیا گیا۔ پرنٹ میڈیا کم وبیش ایک صدی تک ایک موثر قوت بن کر معاشرے میں موجود رہا۔ اس دوران لکھے ہوئے لفظ کی بہت اہمیت ہوتی تھی۔ اگر کبھی کوئی خبر کسی محکمہ یا ملازم کے خلاف لگ جاتی، حکومتی مشنری اور صاحبان اقتدار حرکت میں آ جاتے۔بیسویں صدی کے نصف آخر تک پرنٹ میڈیا ایک بلا شرکت غیرے اپنے ذرایع کی بنیاد پر موجود رہا۔ حزبِ اقتدار، حزبِ مخالف اور عوام ، تینوں کے ساتھ اس کے روابط بنے اور اس نے تینوں سے اپنی قوت منوائی۔ تینوں طبقوں نے اپنے اپنے تئیں اس کی خدمت کی، اسے ہاتھ میں رکھا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر جب پرنٹ میڈیا نے ایک طوائف کی طرح اپنی قیمت مقرر کر دی تو اس کا شیرازہ بھی بار بار بکھرنے لگا۔ روزانہ چھپنے والے اخبارات، ہفت روزے او ر ماہنامے، آج بھی ایک حد تک اپنی اہمیت رکھتے ہیں مگر اب ان میں ویسی توانائی نہیں رہی۔ جب ایک شے کمزور ہو جاتی، یہ فطرت کا اصول ہے کہ اس کی جگہ لینے اس سے طاقتور شے آ جاتی ہے۔ اور وہ ہے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا۔ ان دو میڈیا نے اس وقت دنیا بھر کی آبادی کو اپنے سحر میں لیا ہوا ہے۔ اخبار کا لکھاہوا لفظ ایک اہمیت رکھتا تھا، اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی تھی، شایع ہو جانے کے بعد اس کی تدوین اور کانٹ چھانٹ ممکن نہ تھی۔ اسی لیے چھاپنے سے پہلے نہایت کوشش اور محنت کر کے خبر کے درست اور مستند ہونے کا پتہ لگا لیا جاتاتھا۔

 کمپیوٹر ایج میں داخل ہو کر رسائی اور اظہار کے ذرایع تیز ہو گئے ہیں، اس سرعت رفتاری نے ایک مقابلے کی فضا پیدا کر دی ہے۔ کمپیوٹر ایج میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے بہت سے مسائل حل کر دیے ہیں مگر ساتھ کئی نئے مسائل پیدا بھی کر دیے ہیں۔ ’بریکنگ نیوز‘ کی اصطلاح اور اس سے جو خوف ودہشت کی بنتی ہے، اس نے لوگوںمیں تجسس اورسچ کو جلد از جلد جان لینے کی ہوس پیدا کر دی ہے۔ پہلے جو خبریںشایع ہوتی تھیں، ان کی زندگی کم از کم ایک دن تو ضرور ہوتی تھی۔اور اس ایک دن میں لوگ ان کو پڑھتے، غوروخوض کرتے، اور بحث مباحثے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتے۔مگر الیکٹرونک میڈیا نے جس سرعت سے خبر کو ناظرین تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ نہ تو خود کو وقت دیتے ہیں کہ پہلے سچ جان لیں اور پھر پیش کریں، اور نہ ناظرین کو وقفہ دیتے ہیں کہ وہ ان کی دی ہوئی اطلاع کے مطابق کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں خبر موصول ہوتی رہتی ہے، بیان کردہ سچ میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اس پل پل بدلتے سچ نے لوگوں سے یقین و اعتبار کی دولت چھین لی ہے اور عوام کو ایک غیر یقینی کی فضا میں دھکیل دیا ہے۔ یہ غیر یقینی کی فضا اس وقت معاشرے میں ہر طرف راج کر رہی ہے اور حتمی سچ تک پہنچنے کے راستے مسدود کر رہی ہے۔ معاشرہ ایک بہت بڑی کنفیوژن کی گرد میںہے۔ دھندلے خدوخال عجیب عجیب تصویریں گرد میں بناتے ہیں۔ ایک فیصلہ کرنے کے بعد ہم خود ہی اسے مسترد کر کے ایک دوسرے نتیجے تک تھوڑے وقت کے بعد ہی پہنچ جاتے ہیں۔ بقول حکایت مولانا روم، ایک اندھیرے کمرے میں کہ جہاں ایک ہاتھی کھڑا ہے، ہم اسے ٹٹول ٹٹول کر معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ جس کے ہاتھ میں اس کی ٹانگ آتی ہے، کہتا ہے یہ ستون ہے۔ جس کے ہاتھ میں کان آتے ہیں، کہتا ہے پنکھا ہے، جس کے ہاتھ میں دانت آتے ہیں، کہتا ہے کسی درخت کی شاخ ہے۔جو پیٹ کو چھوتا ہے، کہتا ہے پہاڑ ہے۔الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے بھی ہماری سچ کی تلاش مکمل نہیں ہوئی۔ہماری آنکھوں کے سامنے وقوعہ ہو جاتا ہے مگر ہم سچ نہیں جان سکتے اور اگر جان لیں تو پورا سچ لکھ نہیں سکتے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).