پرانے پاکستان سے بابائے قوم کے نام آخری مکتوب


آج یوم آزادی ہے۔ اتفاق سے اس برس یوم آزادی عین ان دنوں میں پڑا ہے جب نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی کا افتتاح ہو گیا ہے اور اگلے دو چار روز میں نئی حکومت پوری طرح سے ذمہ داریاں سنبھال لے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ اکیس کروڑ کے اس ملک میں بہت سی آنکھوں میں امید کے دیے جھلملا رہے ہیں۔ آوازوں میں اعتماد ہے، وعدوں پہ اعتبار ہے۔ کسی کی خوشی میں کھنڈت ڈالنا وضع داری کے منافی ہے۔ جو لوگ نئے پاکستان کی پذیرائی میں سرشار ہیں، خدا کرے کہ ان کے خواب پورے ہوں۔

درویش بے نشاں صاف کہے دیتا ہے کہ پھول کھلنے لگے، تم کہو، میں نہیں مانتا۔ آج صبح خواہش پیدا ہوئی کہ ایک مکتوب عالم بالا میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھا جائے۔ قوم کے باپ کو اس ریاست کی کچھ خبر دی جائے جس کا افتتاح کرتے ہوئے عظیم رہنما نے گیارہ اگست 1947ء کو پاکستان کے شہریوں کو روشن مستقبل کی بشارت دی تھی۔ ابھی تین روز پہلے ہم نے بابائے قوم کے اسی فرمان کی یاد میں مذہبی اقلیتوں کا دن منایا ہے۔

بابائے قوم لفظوں کے استعمال میں بہت محتاط تھے اور گیارہ اگست کی اس مختصر تقریر پر تو، ہیکٹر بولائتھو کی روایت کے مطابق، انہوں نے کئی گھنٹے محنت کی تھی۔ ان کی اس تقریر کا بنیادی پیغام شہریوں کی مساوات تھا۔ قائد اعظم کے جانشین کیسے گریز پا نکلے کہ جس تاریخ ساز تقریر میں یہ نوید دی گئی تھی کہ پاکستان میں ہندو اور مسلم اپنے مذہب پہ قائم رہتے ہوئے سیاسی اعتبار سے ایک جیسے حقوق، رتبے اور اختیار کے مالک ہوں گے، ہم نے اس تقریر کی یاد میں گیارہ اگست کو مذہبی اقلیتوں کا دن قرار دے ڈالا۔ گویا عقیدے کے نام پر مستقل حدبندیاں، ناقابل عبور دیواریں اور شہریت میں درجہ بندی۔

ہمارے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ عقیدے کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی امتیاز کیا جائے گا۔ آئین کی شق پچیس دو ٹوک لفظوں میں کہتی ہے کہ کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ آئین کی شق بیس میں جہاں ہر شہری کو عقیدے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ریاست، کسی گروہ یا کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ پاکستان کے کسی شہری کی اس مطلق آزادی میں مداخلت کرے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں ہم نے مختلف گروہوں کو اقلیت قرار دینے کے مطالبے کی روایت قائم کر ڈالی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کسی شناخت کی بنیاد پر اقلیت کو محض عددی گوشوارے کا معاملہ نہیں سمجھا بلکہ اقلیت ہونے کو گویا تعزیری درجہ قرار دیا۔ ہم قائد کا پیغام سمجھے ہی نہیں۔ ہم ان کے فرمان پر عمل کیا کرتے؟

قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی کریئر کا آغاز آل انڈیا کانگریس اور ہوم رول لیگ سے کیا تھا۔ محمد علی جناح اس زمین کے ان ابتدائی فرزندوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس اصول کو تسلیم کیا کہ کسی ملک پر حکومت کا حق اس دھرتی پر رہنے والے باشندوں کی امانت ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی لڑی گئی۔ مہاتما گاندھی تو ابھی ہندوستان تشریف نہیں لائے تھے، بمبئی کا ذہین اور پرعزم بیرسٹر محمد علی جناح، دادا بھائی نورو جی، کرشن گوپال گوکھلے، گنگا دھرتلک اور ڈاکٹر اینی بیسنٹ کا ہم صفیر تھا۔ محمد علی جناح ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ہراول دستے میں شامل تھے۔

درویش بے نشاں نے بابائے قوم کی عظمت کر سامنے سر جھکاتے ہوئے مجوزہ مکتوب نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں بابائے قوم کو کیسے بتاؤں کہ تین دستور، گیارہ قومی انتخابات اور چودہ قومی اسمبلیوں کی آزمائش سے گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں عوام کا حق حکمرانی پامال ہے۔ عوام کی حاکمیت کا مطالبہ کرنے والوں کی تضحیک کی جاتی ہے، انہیں عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔ عوام کے مہر لگے بیلٹ پیپر کچرے کے ڈھیروں پر پڑے ہیں۔ جمہوری حاکمیت کے نشان ایوان بلند و بالا عمارتوں میں بدستور قائم ہیں لیکن ان ایوانوں کی حقیقت قوم کے خلاف جرائم پر ڈالے گئے پردے سے زیادہ نہیں ۔

Altaf Hussain – Dawn

بمئے کرانیکل کے ایڈیٹر بی جی ہارنیمن کے حق اظہار کی وکالت کرنے والے قائد اعظم محمد علی جناح نے روزنامہ ڈان کی بنیاد رکھی تو اس کے ایڈیٹر سے کہا تھا کہ آپ کو یہ بتانا میرا کام نہیں کہ آپ کو کیا لکھنا چاہئیے۔ گورنر جنرل بننے کے بعد کراچی کے ایک ہندو اخبار نویس کو یقین دلایا کہ وہ بغیر کسی خوف کے اپنی رائے لکھتا رہے۔ اس سے حکومت کو رہنمائی ملے گی۔ ایک نوآموز سرکاری افسر کی حیثیت سے آغا شاہی آزادی صحافت محدود کرنے والا ایک مسودہ قانون لے کر گورنر جنرل کے حضور پیش ہوا۔ قائد اعظم نے فرمایا میں زندگی بھر آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے لڑتا رہا ہوں۔ اب ایسے قوانین کی منظوری کیسے دے سکتا ہوں؟

درویش پاکستان کے یوم آزادی پر بابائے قوم کو مغموم نہیں کرنا چاہتا۔ اگر لکھتا تو عرض کرتا کہ حضرت، آپ کا جاری کیا گیا اخبار ڈان بدستور شائع ہو رہا ہے اور…. آپ سے نسبت کا احترام کرتے ہوئے مملکت کے تمام چھوٹے بڑے اہلکار ڈان کی آرا کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ 10 اورنگزیب روڈ دلی میں قیام کے دوران آپ نے روزنامہ جنگ کا نام ضرور سنا ہو گا، اب یہ اخبار پاکستان کا کثیر الااشاعت اردو اخبار ہے۔ اس اخبار کا بھی بہت احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں صحافت آزاد ہے۔ اکثر کلیدی ریاستی اہلکار مختلف سلائیڈوں کی مدد سے اہم صحافیوں کی نشاندہی کر کے قوم کو بتاتے رہتے ہیں کہ صحافت کی آزادی، قومی سلامتی اور ملکی ترقی کی ضامن ہے۔

اگرچہ میں نے بابائے قوم کو مکتوب نہ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر لکھتا تو یہ ضرور بتاتا کہ آپ کے ارشادات کے عین مطابق پاکستان کے سیاسی اور سماجی امور میں مذہبی پیشواؤں کو ہرگز کوئی خصوصی اہمیت حاصل نہیں۔ تمام ہمسایہ ممالک سے نہایت خوشگوار تعلقات استوار ہیں۔ ہمارے ملک کا انتخابی عمل ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے کہ یورپ وغیرہ سے مبصرین ہمارے انتخابات کا مطالعاتی دورہ کرنے تشریف لاتے ہیں اور ہمارے شفاف انتخابی عمل سے استفادہ کرتے ہیں۔

اقوام عالم میں پاکستان کی سربلندی ضرب المثل ہے۔ صحت، تعلیم، جان و مال کا تحفظ میں مملکت پاکستان کے اشاریے دنیا کی بہترین قوموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ آج حیات ہوتے تو آپ کا سر فخر سے بلند ہو جاتا کہ پاکستان کی عدلیہ کے تمام فیصلے قانون کے لفظ اور منشا پر پورے اترتے ہیں۔ آپ کو 1916ءمیں بال گنگا دھر تلک کو حکومت کے اشارے پر سزا دینے والا جسٹس داور یاد ہو گا۔ آپ اس مقدمے میں وکیل صفائی تھے۔ آپ کو بصد افتخار اطلاع دی جاتی ہے کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جسٹس داور جیسی کوئی بدنما مثال نہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ہمارے ججوں پر اثر انداز ہو سکے۔

اگرچہ یہ مکتوب لکھا نہیں گیا لیکن میری خواہش تھی کہ میں بابائے قوم کو یہ خوش خبری ضرور سناتا کہ آپ کے عطا کردہ وطن عزیز میں ہم ہر دس برس بعد ایک نیا پاکستان بناتے ہیں۔ ہم نے 1958 میں انقلاب برپا کیا۔ 1971ءمیں نیا پاکستان بنایا۔ 1977ء میں اپنا قبلہ درست کیا۔ 1988 میں سلطانی جمہور کا اعلان کیا۔ 1999 میں شفاف احتساب کیا۔ 2008ءمیں ریاستی اداروں کے سیاسی عمل سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا اور اب بفضل تعالی 2018ء میں کرپشن سے پاک پاکستان کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں۔ ہم قائد اعظم کی توصیف میں ہمیشہ رطب اللسان رہیں گے کیوں کہ انہوں نے ہمیں یہ آزاد مملکت عطا کی تاکہ ہم اپنی اخلاقی قامت، ذہنی استعداد، اجتماعی دیانت داری اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور ثبوت دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).