آدم زاد اور بنتِ حوا کی عزت


’ارے نہیں نہیں۔ ایسے ہی پرائی مشکل کو اپنے گلے لے لیں‘
’پرے کرو جی! ہمیں کیا پتہ کون ہے؟ ‘
’بیٹا دیکھو تو سہی معصوم سی گڑیا لگتی ہے‘
’بڑے میاں چھوڑیے بھی۔ ابھی پولیس آگئی تو مقدمہ ہم پر ہی کر ڈالے گی‘۔

لیکن بیٹا
’نہیں چاچا! بالکل نہیں۔ ہمیں اپنی زندگی بہت پیاری ہے‘
چلو بھئی چلو سب یہاں سے
اور پھر دور سے آتی ہوئی ایک آواز
مبشر مبارک ہو یار! کل خبر ملی تمھاری بیٹی ہوئی ہے۔ اللہ مبارک کرے۔
’خیر مبارک! بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں‘۔

وہ بس یہیں تک سن پائی تھی۔ وہ سن رہی تھی کچھ کچھ سمجھ بھی رہی تھی مگر تکلیف کے باعث سن پڑی تھی۔ بچی کچھی ہمت لوگوں کی باتیں ختم کر چکی تھیں۔ اب پوری زندگی اسی طرح آنکھیں بند کر کے گزارنی تھی۔ یا یوں ہی سسک سسک کرمر جانا تھا۔ مگر وہ معاشرہ جہاں اپنی بیٹی تو اللہ کی رحمت لگتی ہے وہاں اُس بنتِ حوا نے رسوائی کا داغ لیے زندہ درگور ہونا تھا یا پھر ہمدردیاں ساتھ لئے چار کاندھوں پر منوں مٹی تلے چلے جانا تھا۔

یہ واقعہ محض ایک ننھی کلی پر گزری روداد نہیں بلکہ زینب، عاصمہ اور ان جیسی درجنوں معصوم جانوں کی کہانی ہے۔ نہ زمین پھٹتی ہے نہ آسمان زمیں بوس ہوتا ہے جب درندے انسانی شکل میں چمن کے ننھے پھولوں کو اُجاڑ دیتے ہیں۔ کچھ دن بہت غل مچتا ہے۔ تجزیے، تبصرے، مکالے چھپتے ہیں۔ ہر شخص مشتعل نظر آتا ہے اور پھر سنسان، بیابان جیسے طوفان کے گزر جانے کے بعد ہُو کا عالم ہو۔ سب کی زندگی معمول پر آ جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن قیامت تو جس پر گزرتی ہے وہ جانے یا اُس کا خدا۔

تاریخ اُٹھا کر دیکھی جائے تو ماضی قریب میں قصور کے بعد میڈیا کے ہر چینل، ہر اخبار، حتی کہ سوشل میڈیا پر بھی معصوم، بے قصور زینب کے لیے انصاف مانگا گیا۔ جو ٹوئٹر پر بھی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ لیکن کچھ دن بعد مکمل خاموشی۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں ننھی منھی کلیوں کو زمانے کی بے حسی اور حیوانوں کی درندگی تلے روندا گیا۔ آئے روز پیش آنے والے واقعات اور اُن پر اختیار کی جانے والی خاموشی نے اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جب انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں، مجرم کو سزا دے کر لوگوں کے لیے نشانِ عبرت نہ بنایا جائے تو باقی معاشرہ وہ ظلم کرنے سے ڈرتا نہیں۔

مگر یہاں ایک بات قابلِ فکر ہے کہ کیا ہمارے یہاں ظلم و ستم کی بڑھتی ہوئی شرح محض مجرموں کو بر وقت سزا نہ دینا ہے؟ نہیں بلکہ اس کی ایک اور بڑی وجہ ہم لوگوں کی بے حسی ہے۔ ہم بحیثیت ایک معاشرہ ناکام ہو چکے ہیں۔ جہاں ہر انسان کو اپنی بہن بیٹی کی عزت تو اپنی عزت لگتی ہے لیکن کسی دوسرے کی بیٹی شاید انسان بھی نہیں لگتی۔ اپنے غم پر تو رونا آتا ہے مگر کسی دوسرے کی تکلیف پر دل بھی نہیں کانپتا۔ پھر چاہے حوا کی بیٹی کی عزت کراچی کی گنجان آباد سڑکوں پر نیلام ہو یا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایف 9 پارک حکومتی ملازم اُسے پامال کرے زمانہ اسے ایک واقعہ قرار دیتے ہوئے بھول جانے کو ترجیح دیتا ہے۔

وہ جگہ جہاں مرد اکیلا باہر جائے تو دوسری عورتوں حتی کہ معصوم بچیوں پر بھی نظر رکھے لیکن اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ باقی مردوں پر نظر رکھنا پڑے ایسے دوہرے معیار میں کسی بھی عزت لٹنا فطری بات ہے۔

اس کے باوجود جس دن ہم ایک دوسرے کا احساس کرنے لگے، جس دن ہم نے ہر لڑکی کو خدا کی رحمت سمجھ کر عزت کرنا شروع کر دی۔ کسی کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھ کر آواز بلند کی اور آدم زاد نے بنتِ حوا کی تذلیل کو تکریم میں بدلنے کی اپنی سی ہی سہی پر کوشش کی تو ہمارے معاشرے کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ کیونکہ وہ قومیں بہت اوپر جاتی ہیں جو اپنے ساتھ رہنے والے ہر انسان کا بلا تفریق خیال رکھتی ہیں۔ ان کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض میں ذرا برابر بھی چوُک نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).