85ء والی ’’سرپرائز ‘‘ کی توقع


دن تو سچی بات ہے میرے ہر شے سے بے نیاز ہوکر گھر بیٹھنے کے آ چکے ہیں۔ ایک چیز مگر ہوتی ہے تجسس۔ یہ بہت چاو سے صحافی بنے کسی شخص کو تادمِ مرگ چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔
پیر کی صبح پاکستان کی سیاسی تاریخ کی 15ویں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہونا ہے۔یہ کالم لکھتے ہی وہاں جانے کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔

1985 کے غیر جماعی انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کے بارے میں اپنے صحافتی سفر کے ابتدائی ایام میں کچھ ایسے ہی تجسس بھرے اشتیاق کا تجربہ ہوا تھا۔ جماعتِ اسلامی اور پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کے سوا ہماری تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ عوام اور خاص کر قصبات اور دیہات میں آباد پاکستانیوں نے مگر پرجوش رویے سے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ اپنے دفاتر میں قید ہوئے صحافیوں کی اکثریت ان کی گرم جوشی کو دیکھ نہیں پائی۔ اپنے تئیں بہت رعونت سے یہ طے کردیا کہ 8 برس کی فوجی آمریت کی چھتری تلے غیر جماعتی انتخابات کی بدولت نمودار ہوئی قومی اسمبلی اپنے سے قبل نام زد شدہ اراکین پر مشتمل جنرل ضیا کی ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ جیسی حاضرجناب کہتے جی حضوریوں پر مشتمل ہوگی۔

ایک نوجوان رپورٹر کی لگن کے ساتھ میں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں جاکر 1985 کے انتخابی عمل کا جائزہ لیا تھا۔ اس تجربے کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ مذکورہ اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اراکین کی اکثریت اپنی ’’خودمختاری‘‘ ثابت کرنے کو بے چین ہے۔ ربّ کا لاکھ لاکھ شکر کہ میں درست ثابت ہوا۔’’جی حضوری‘‘ تصور کیے اراکین نے خواجہ صفدر مرحوم کے بجائے سید فخر امام کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کرکے جنرل ضیا اور اس کے منصوبہ سازوں کو حیران کردیا۔ پیر پگاڑا کی سفارش پر ان کے ایک مرید محمد خان جونیجو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نام زد ہوئے تھے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے اعلان کر دیا کہ مارشل لا اور جمہوری ادارے ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ضیا آمریت کو سیاسی Cover فراہم کرنے کے منصوبے اس اعلان کے ساتھ ہی غارت ہو گئے اور بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مئی 1988 میں جنرل ضیا نے اپنی ہی تخلیق کردہ قومی اسمبلی اور نام زد کردہ وزیر اعظم کو فارغ کر دیا۔ ان دونوں کو گھر بھیجنے کے بعد اس کے پاس What Next کا جواب نہیں تھا۔ گومگو کے عالم میں رہے اور اگست 1988میں فضائی حادثے کا شکار ہو گئے۔

2018میں منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے مینڈیٹ کے بارے میں بھی بے تحاشہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے کئی جید سیاسی رہ نماوں اور تبصرہ نگاروں کا اصرار ہے کہ اس سال کے انتخابی عمل کو ایک مخصوص جماعت کے لیے اکثریت فراہم کرنے کے لیے ہمارے کئی ریاستی اداروں نے باہم مل کر Manage کیا ہے۔ ’’لاڈلے‘‘ کی جماعت میں مگر کئی نو وارد اور نسبتاََ نوجوان اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف فقط موقع شناس Electables پر مشتمل ہی نہیں۔ ’’لاڈلی‘‘ سمجھی جماعت ہی کی جانب سے مجھے 1985 میں نمودار ہونے والی حیرتوں جیسی توقع ہے۔ اپنی توقعات کو آزمانے آنے والے چند دنوں تک پیر کے روز حلف لینے والی قومی اسمبلی کی کارروائی کو لہذا متحرک رپورٹروں کی طرح دیکھنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔

اہم ترین بات اس اسمبلی میں بھی عمران خان صاحب کا بحیثیت وزیر اعظم انتخاب نہیں بلکہ اسپیکر کا انتخاب ہو گا۔ یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کی طرح اس عہدے کے لیے کھڑے کسی امیدوار کے حامیوں کو قطار میں لگ کر ’’ہاں‘‘ کہنے والوں کے لیے مختص لابی میں رکھے رجسٹرپر دست خط کرنے کے لیے جانا ضروری نہیں ہوتا۔

تحریک انصاف نے اسپیکر کے عہدے کے لیے اسد قیصر کو نام زد کر رکھا ہے۔ اپوزیشن کے مشترک امیدوار پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ ہیں۔ اسد قیصر پہلی بار قومی اسمبلی کے لیے رکن منتخب ہوئے ہیں، جب کہ ان کے مد مقابل 1990 سے آئی ہر قومی اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ سابق قومی اسمبلی میں وہ قائدِ حزب اختلاف بھی رہے۔

سکھر کے خورشید شاہ ایک محنتی سیاسی کارکن ہیں۔ صبح سویرے اُٹھنے کے بعد رات گئے تک سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ بدترین سیاسی مخالفین سے بھی سماجی راہ و رسم مہذب انداز میں برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ کئی ایسی چھوٹی جماعتیں جنھوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے عمران صاحب کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اسپیکر کے عہدے کے لیے ہوئی خفیہ رائے شماری میں خورشید شاہ کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گی۔ تحریک انصاف کی صفوں میں سے بھی چند لوگ ان کے حامی بن گئے تو ہمیں 1985میں نمودار ہوئی فخر ا مام جیسی Surprise دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

2018 کے انتخابی عمل کو ’’لاڈلے‘‘ کی سہولت کے لیے ’’رچائے ڈرامے‘‘ کا الزام لگانے والوں کا مگر اصرار ہے کہ ’’مائنس نواز‘‘ والی گیم ابھی اپنے انجام تک نہیں پہنچی۔ تحریک انصاف نے اسد قیصر جیسے ’’کم زور‘‘ امیدوار کو اسپیکر کے عہدے کے لیے انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے، تو اس کی وجہ اس جماعت کے منصوبہ سازوں کا بے پناہ اعتماد ہے۔ انھیں یقین ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کی ایک مؤثر تعداد اب اڈیالہ جیل میں قید ہوئے اور عوامی عہدے کے لیے تا عمر نا اہل قرار پائے رہ نما کے ’’بیانیے‘‘ سے اُکتا چکی ہے۔ اسپیکر کے عہدے کے لیے ہوئی خفیہ رائے شماری کے دوران اسد قیصر کی حمایت میں ووٹ ڈال کر وہ اپنی اُکتاہٹ کا اظہار کرے گی۔

خورشید شاہ اور اسد قیصر کے مابین مقابلہ اس تناظر میں انتہائی اہم اور دل چسپ بن چکا ہے۔ اس انتخاب کا نتیجہ آنے والے دنوں کی سیاست کا کئی حوالوں سے رُخ بھی طے کردے گا۔ اسے گھر بیٹھ کر سمجھا نہیں جا سکتا۔ 25جولائی 2018 کے روز منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے ابتدائی ایام کو لہذا صحافی کی نظر سے برسر میدان جاکر دیکھنا ہو گا۔ یہ مقابلہ دیکھے اور سمجھے بغیر میں آنے والے دنوں کی سیاست کے بارے میں محض یاوہ گوئی سے کام چلاوں گا۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ نثر لکھنے کی مہارت سے بھی تقریباََ نابلد۔ ٹھوس واقعات کے حوالے دیے بغیر میرے لیے سیاست کے بارے میں لکھنا تقریباََ نا ممکن ہے۔ رٹائرمنٹ والی عمر میں لہذا صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے کے بعد پارلیمان ہاوس کی جانب روانہ ہونے کو تیار بیٹھا ہوں۔

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).