چودہ اگست کی دو یادیں


چودہ اگست کی پہلی یاد کو آج پورے چالیس سال ہوگئے۔ اس روز میری منجھلی بہن پیدا ہوئی تھی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے حالانکہ میں تب چھ سال کا تھا۔ پی ٹی وی پر قائداعظم کی بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو چل رہی تھی اور پڑوس کے پپو بھائی اسکول کی چھٹی کی وجہ سے کھیلنے کے لیے ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ بابا کو گھر پر ہونا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں تھے۔
1978 میں خانیوال جیسے چھوٹے شہر میں میٹرنٹی ہوم نہیں ہوتے تھے۔ ڈاکٹر جمیلہ ہمارے گھر آئی تھیں۔ وہ ڈاکٹر نہیں تھیں۔ غالباً لیڈی ہیلتھ وزیٹر کے کورس کیے ہوں گے۔ ہم چار بہن بھائی ان کے ہاتھ کے تھے۔ میری دادی کہتی تھیں کہ جمیلہ کو بھی ماں کہا کرو۔ مجھے ان سے شرم آتی تھی۔ کبھی بات نہیں کرپاتا تھا۔

کبھی امی ڈاکٹر جمیلہ کے گھر جاتیں تو مجھے ساتھ لے جاتیں۔ بلاک گیارہ میں ان کا کارنر کا بہت بڑے صحن والا مکان تھا۔ ایک طرف تین چار کمرے تھے جن میں سے ایک کو وہ کلینک کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ اگر مجھے ٹھیک یاد ہے تو ان کے شوہر نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کا ایک نوجوان بیٹا تھا جو ظاہر ہے کہ مجھ سے کافی بڑا تھا۔ میں پرائمری کا طالب علم تھا تو وہ کالج میں ہوگا۔ ایک بار بابا مجھے لے کر بازار گئے اور حسب معمول گپی کے چوک میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ میں بور ہورہا تھا۔ ڈاکٹر جمیلہ کا بیٹا وہاں سے گزرا اور بابا کے دوست سے سلام دعا کی۔ وہ چلا گیا تو بابا کے دوست نے بتایا کہ اس لڑکے نے چند دن پہلے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ میں تب خودکشی کا مطلب نہیں جانتا تھا۔

ہم کراچی آگئے اور پھر میں نے کبھی امی کے منہ سے ڈاکٹر جمیلہ کا ذکر نہیں سنا۔ 1993 میں امی سے ضد کرکے ایک دوست کے ساتھ خانیوال گیا اور ڈیڑھ دن قیام کیا۔ اسکول کے دوستوں سے ملاقات کی اور شہر میں آوارہ گردی کی۔ بلاک گیارہ میں گھومتے پھرتے ڈاکٹر جمیلہ کا گھر سامنے آگیا۔ میں نے بے اختیار ڈور بیل بجادی۔ دروازہ انھوں نے خود کھولا۔ میں نے تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئیں۔ مجھے پیار کیا۔ اندر آنے کو کہا تو میں نے بہانہ بنایا کہ ایک دوست ساتھ ہے، پھر آؤں گا۔ میں نے بیٹے کی خیریت دریافت کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے جوان بیٹے نے خودکشی کرلی۔ خدا جانے اس کم بخت کو زندگی سے کیا چڑ تھی۔

میں کئی سال بعد دوبارہ خانیوال گیا تو ڈاکٹر جمیلہ کا انتقال ہوچکا تھا اور ان کے مکان پر رشتے دار قابض ہوچکے تھے۔
چودہ اگست کی ایک اور یاد تازہ ہے لیکن وہ خوشگوار نہیں۔ میں اپنی کتاب الم غلم میں اس کا احوال لکھ چکا ہوں۔
ہم کراچی منتقل ہوچکے تھے۔ امی کو خبر ملی کہ ان کی بھابھی یعنی میری ممانی کے بہنوئی کی طبعیت سخت خراب ہے۔ وہ راولپنڈی میں رہتے تھے۔ امی نے کہا کہ میرے ساتھ بھائی جان کے گھر بفرزون چلو۔

اس سے پہلے میں آٹھویں کے امتحان میں فرسٹ آیا تو بابا نے مجھے یاشیکا کا آٹوفوکس کیمرا دلایا تھا۔ میں اس دن وہ کیمرا اپنے ساتھ بفرزون لے گیا اور ماموں کے گھر میں کئی فوٹو کھینچے۔ ماموں زاد بھائی تصور نے میری اور میں نے ان کی ایک ایک تصویر بنائی جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔

اس دوران راولپنڈی سے فون آیا کہ ممانی کے بہنوئی کا انتقال ہوگیا۔ ممانی رونے لگیں کہ میری بہن بیوہ ہوگئی۔ وزیر حسین نقوی گورڈن کالج کے پروفیسر تھے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ انھیں کتابیں پڑھنے اور ادبی رسالے جمع کرنے کا شوق تھا تو ان سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہوا۔

بعد میں وزیر حسین صاحب کی فیملی کراچی شفٹ ہوگئی اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی سے میری شادی ہوئی۔ ان کے اہلخانہ کچھ کتابیں سمیٹ کر کراچی لے آئے تھے اور وہ خزانہ آخرکار میرے ہاتھ لگا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi