ایک محبت، ایک فسانہ… (آخری حصہ(


منگنی توڑنے کے احمقانہ فیصلے پر فاخرہ اور ذیشان کی مائوں، دوستوں اور سکھیوں نے انہیں بہت سمجھایا تھا مگر ایک تو ناپختہ جمہوری رویے اور اس پر مستزاد چوہدری حاکم اور ملک خداداد کی شرانگیز تقاریر۔ جذباتی نعرہ بازی نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور لوئرمڈل کلاس کے سادہ لوح جوڑے نے سیاسی اختلاف کو حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہوئے اپنی محبت کی قربانی دے دی۔

اُس دن گلی میں ذیشان کو دیکھ کر فاخرہ کے شکستہ دل کا شٹر دوبارہ اٹھ توگیا مگر اس کا مکیں کوئی اور چوکھٹ پارکرچکاتھا۔ ذیشان کی ماں نے منگنی ٹوٹنے کے بعد اس کی شادی اپنی بہن کی بیٹی شاہدہ سے کر دی تھی۔ فاخرہ کی ماں نے بھی اس کے رشتے کے لیے بڑی دوڑ دھوپ کی مگر ایک تو کفیل کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد چھائی غربت اور اوپر سے وہ ذیشان کی محبت میں اتنی بدنام ہوئی تھی کہ ہر طرف سے جواب ہو گیا۔ مائیں مگر کب ہمت ہارتی ہیں؟ اس لاچار نے بھی فاخرہ کا گھر بسانے کی جدوجہد ترک نہ کی اور آخرکار کامیاب ہو گئی۔ تارکول کی رنگت والا ادھیڑ عمر جمشید ایک سرکاری ڈسپنسری میں خاکروب تھا، جس کی بیوی تین بچے چھوڑ کر دنیا کے دکھوں سے آزاد ہو گئی تھی۔ فاخرہ اس بے جوڑ رشتے پر بہت چیخی چلائی مگر اس کی ماں کے آگے ایک نہ چلی۔ پھر ایک دن وہ آخرِ شب کے ہارے ہوئے جواری کی طرح ڈولی میں بیٹھی اور جمشید کے ڈربہ نما، غلیظ سے گھر میں آ گئی۔ جمشید، اس کے باپ اور بچوں کی خدمت کرتے اور طعنے، جھڑکیاں اور جوتے سہتے آٹھ سال کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران وہ خود بھی چار بچوں کی ماں بن گئی۔ ایک تو غربت کی لعنت‘ اوپر سے ڈھائی مرلے کے بوسیدہ مکان میں سات بچے۔ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی۔ کار زارِ حیات میں وہ گھمسان کا رن پڑا کہ اس کا شعلہ آفریں حسن قصۂ پارینہ ہو گیا۔ حور شمائل فاخرہ کے چہرے کی شادابی تنگ دستی، ناکافی خوراک اور دل کی ویرانیوں نے مل کر چاٹ لی۔

ادھر ذیشان کو بھی ترک محبت مہنگی پڑی تھی۔ نیم خواندہ شاہدہ ایک لڑاکا، فضول خرچ اور بددماغ عورت تھی، جس نے ذیشان کی زندگی جہنم بنا دی۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اسے فاخرہ کے طعنے دیتی۔ بے جا فرمائشیں پوری نہ کرنے پر دو تین مرتبہ تو شاہدہ نے اپنے بھائیوں کو بلوا کر ذیشان کو پٹوایا بھی تھا۔ گھر کے خراب حالات کا اثر کاروبار پر بھی پڑا اور ذیشان مقروض ہو گیا۔ فاخرہ کیا روٹھی کہ اس کا مقدر بھی روٹھ گیا۔ آخر اس نے مجبور ہو کر محلے میں گلی کی نکڑ پر واقع اپنی چھوٹی سی کریانے کی دکان بیچ دی اور رکشہ چلانے لگا۔ وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔

سلامت پارٹی کی حکومت بمشکل دو سال ہی چل سکی تھی۔ امن و امان کی خراب صورتحال نے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچا دی۔ اپوزیشن نے اپنا مثبت جمہوری کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت کے خلاف پرتشدد تحریک چلائی۔ حالت کنٹرول سے باہر ہوئے تو فوج کے سپہ سالارنے حکمرانوں کے خلاف کرپشن اور نااہلی کی چارج شیٹ تیار کرکے انہیں چلتا کیا اور خود اقتدار سنبھال لیا۔ اس نے قوم سے حالات ٹھیک ہوتے ہی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ پھر کئی ساون بھادوں اور چیت بیساکھ بیت گئے مگر حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ چھ سال بعد اندرونی اور بیرونی دبائو پر اس صاحب اقتدار نے اصلاح احوال کا کارگر نسخہ آزمایا اور ملک کے کونے کونے سے دیانتدار اور باکردار سیاستدان چن کر ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی، جسے لوگ سرکاری پارٹی کہتے تھے۔ اس کارخیر کے بعد اس نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ملک خداداد اور چوہدری حاکم دونوں اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کرتے ہوئے اس پارٹی میں شامل ہو گئے اور اسی شہر سے بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن کر میدان میں اتر آئے۔ فاخرہ کے سیاسی نظریات حالات کی بھٹی میں جل کر بھسم ہو چکے تھے مگر جب اسے یہ خبر ملی تو وہ دم بخود رہ گئی۔ کل جن لیڈروں نے سیاسی اختلافات کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر اس کی زندگی تباہ کی تھی، آج وہ ایک ہی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ دو موٹے موٹے آنسو بے کس کی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے گریبان میں ضم ہو گئے۔

فاخرہ کا چھوٹا بچہ ساری رات بخار میں جلتا رہا تھا۔ وہ خود بھی حبس زدہ رات جاگ کر اپنے جگر گوشے کی تپتی پیشانی پرگیلی پٹیاں رکھتی رہی۔ صبح وہ اسے گود میں اٹھا کر جمشیدکے ساتھ سائیکل پر بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر نے اپنے خاکروب کے بچے کا ہمدردی سے معائنہ کیا اور دوائوں کے ساتھ کچھ ہدایات بھی دیں۔ جمشید کی ڈیوٹی کا وقت تھا، بیوی اور بچے کو واپس گھر چھوڑنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ فاخرہ بچے کو اٹھائے بڑی سڑک تک آئی اور رکشے والوں سے بات کی مگر کوئی بھی دو سو روپے سے کم پر تیار نہیں تھا۔ مہینے کی آخری تاریخیں تھیں اور وہ دو سو روپے کی عیاشی افورڈ نہ کر سکتی تھی جبکہ جمشید اسے مہینے بھر کا لگا بندھا خرچہ دے چکا تھا۔ کوئی سبیل نہ رہی تو فاخرہ نے اللہ کو یاد کیا اور بچے کو سینے سے لگائے پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑی۔

گرمی اور انتخابات کی گہماگہمی عروج پر تھی۔ وہ فٹبال گرائونڈ کے قریب پہنچی تو پٹاخوںکی گھن گرج اور ڈھولوں کی تھاپ پر سرکاری پارٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھا، اونچے سٹیج پر ملک خداداد اور چوہدری حاکم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بلند کیے ہوئے تھے۔ فاخرہ جسے مرگِ تمنا تو یاد تھی مگر فرصتِ ماتم نہ تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا دل بے اختیار ماتم کرنے کو چاہا۔ وہ غیر ارادی طور پر نسبتاً کم رش والی جگہ پر فٹ پاتھ سے اتر کر چار قدم اندر گرائونڈ میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ چوہدری حاکم تقریر کر رہا تھا ”میرے بھائیو اور بہنو! دشمنوں اور حواریوں نے مل کر ہم دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں مگرآج میں ملک خداداد کی شرافت اور دیانتداری کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی ملک خداداد اور میں ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے‘‘ ملک خداداد نے جذباتی انداز میں کھڑے ہوکر تالی بجائی تو حاضرین نے پرجوش نعروں کی گونج میں اس کی تقلید کی۔ لائوڈ سپیکر پر چوہدری حاکم کی آوازگونج رہی تھی ”ہم دونوں بھائی آپ کی حمایت سے مخالف امیدواروں کو چھٹی کادودھ یادکرا دیں گے، جوکنفرم حرام خور اور خزانہ چور ہیں اور جو آپ جیسے معصوم شہریوں کا جذباتی استحصال کرکے آپ کے ووٹ ہتھیاتے رہے ہیں اور آپ کوآپس میں لڑاتے رہے ہیں‘‘ یہ منظر اور الفاظ نیزے کی زہر میں بجھی اَنی کی طرح فاخرہ کے دل میں کھب گئے۔ مزید کچھ دیکھنے، سننے کی اس میں تاب نہ رہی تھی۔

شکستہ دل اور تھکے قدموں سے وہ واپس پلٹی تو پل صراط کی ایک اور ساعت اس کی منتظر تھی۔ ذیشان سڑک کنارے اپنا رکشہ کھڑا کرکے ویران آنکھوں سے جلسے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ جگر فگار جوڑے کی آنکھیں چار ہوئیں تو جیسے برق بلا کوند گئی۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے۔ ساکت کھڑے ذیشان اور فاخرہ کی نگاہوں نے چند لمحوں میں ایک دوسرے سے ہزاروں شکوے کر ڈالے۔ فاخرہ کا سر چکرانے لگا تھا، وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی اور اپنے بوسیدہ دوپٹے سے پسینہ پونچھنے کے بہانے آنسو صاف کرنے لگی۔ ذیشان بھی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ فاخرہ کو اس کی آواز دور کسی گہرے کنوئیں سے آتی سنائی دے رہی تھی ”بہنے دے، مت روک آنسوئوں کو پگلی، انہیں بہنے کے لیے اس سے بہتر منظر کب میسر ہوگا؟ ‘‘ فاخرہ نے سر اٹھا کر دیکھا، ذیشان کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ اس نے بچے کو اپنی چادر بچھا کر فٹ پاتھ پر لٹا دیا، پھر دونوں ہاتھوں سے ذیشان کے داہنے گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر اپنا سر رکھ دیا۔ ضبط کے آگے بندھے تمام بند خس و خاشاک ہوئے۔ اسے جگ سے ذرا بھی لاج نہ آئی۔ وہ یوں دھاڑیں مار کر روئی کہ آسمان دہل گیا، زمین کے کانوں پر مگر جوں تک نہ رینگی۔ ڈھولوں کی تھاپ پر جلسہ جاری رہا۔ لیڈروں کی آتش بجاں تقاریر اور فاخرہ کی دلخراش چیخیں تا دیر سنائی دیتی رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).