پوسٹ ٹروتھ اور حالیہ انتخابات


جناب خورشید ندیم ایک سکہ بند دانشور ہیں انہوں نے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو پوسٹ ٹروتھ نامی تصور کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ ان کی یہ تحریر “ہم سب” نے بھی شائع کی ہے۔ خورشید ندیم صاحب کا شمار پاکستان کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جو اپنی تحریروں میں تحریک انصاف سے اختلاف کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف سے انکے اختلاف اور ناپسندیدگی سے قطع نظر حالیہ انتخابات کے نتائج ایک سنجیدہ  گفتگو کا تقاضا کرتے ہیں۔

پوسٹ ٹروتھ نامی اصطلاح کا استعمال پولیٹکل سائنس میں نیا نہیں ہے۔اس سے مراد وہ خاص حالات لیے جاتے ہیں کہ جن میں معروضی حقائق کے بجائے جذبات سیاسی فیصلوں کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔ معروضی حقائق ناصرف نظرانداز کئے جاتے ہیں بلکہ ان سے اپنی مرضی کا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔ خورشید ندیم صاحب کے مطابق کرپشن کے ذیل میں عوام کو غلط حقائق بتا کر سیاستدانوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف فضاء بنائی گئی جو اصل میں تحریک انصاف کی کامیابی کا سبب بنی۔

بظاہر یہ بات بہت قرین قیاس لگتی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے حقائق کو جس طرح توڑ مروڑ کر صرف سیاستدانوں کے ساتھ جوڑا گیا وہ یقینا قابل غور ہے۔ جس طرح اعدادوشمار کو اپنی مرضی سے استعمال کیا گیا اس سے یوں لگا کہ ملک میں تحریک انصاف کے بڑے سیاسی مخالفین کے علاوہ ہر فرد اور ہر ادارہ کوثر و تسنیم سے دھلا ہوا ہے۔ کسی نے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ کے ممبران کے علاوہ دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے کرپشن کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں۔اور ان پر لگنے والے الزامات کاکیابنا۔۔۔۔ موجودہ عالمی مالیاتی نظام میں کرپشن کس طرح ایک لابدی حصے کے طور پر کام کرتی ہے۔۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں 2008 کی کسادبازاری میں کرپشن کا عمل دخل کیا تھا۔ ان تمام سوالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف بنائی گئی فضا میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح کو پوسٹ ٹروتھ قرار دینے کی وجہ سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے۔

حالیہ انتخابات کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو انتخابات سے پہلے کی گئی تھیں۔ تقریبا ہر سروے میں تحریک انصاف کی فتح کی بابت بتایا گیا تھا۔ اور اسکے اسباب بھی نمایاں تھے۔۔۔مسلم لیگ ن کے قائد کرپشن کے الزامات کے سبب نااہل اور مجرم قرار دیے جانے کے بعد اڈیالہ پہنچ چکے تھے۔ ہر خاص و عام 200 یا 300 ارب کی کرپشن پر یقین کامل رکھتا تھا۔۔۔ لیکن اس انتخابات کے جس نتیجے نے اس طالبعلم کو زیادہ متوجہ کیا وہ تحریک انصاف کی کامیابی کے بجائے تحریک لبیک کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد تھی۔ گوہ یہ پارٹی قومی اسمبلی میں نہیں پہنچی مگر ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ پنجاب میں تیسری اور پاکستان بھر سے پانچویں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ تحریک انصاف کو کامیابی 22 سال کی محنت کے بعد حاصل ہوئی ہے جبکہ تحریک لبیک نے اپنی موجودہ پوزیشن ایک سال سے بھی کم عرصے میں حاصل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کی کامیابی پوسٹ ٹروتھ کا نتیجہ ہے تو تحریک لبیک کی کامیابی کا سبب کیا ہے۔

سماجی علوم میں نتائج اخذ کرنے کے لیے خالص سائنسی علوم کی نسبت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجربہ گاہ میں ہونے والے تجربات میں عوامل (variables) کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔ سماجی علوم کی تحقیق میں محققین کے لیے یہ ایک کار دشوار قرار پاتا ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے یقیناً اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ایک ہی پیمانہ یا تھیوریٹکل فریم ورک استعمال کریں تاکہ تمام نتائج اسی ایک پیمانے کے حوالے سے  سمجھے جا سکیں۔ ایک پارٹی کی فتح کو سمجھنے کے لیے بنایا جانے والا پیمانہ دوسروں کی فتح و شکست کو سمجھنے کے لیے بھی قابل استعمال ہونا چاہیے وگرنہ تجزیہ نامکمل اور جانبدارانہ قرار پائے گا۔

اگر آپ پوسٹ ٹروتھ کی اصطلاح پر لکھا گیا ہلکے سے ہلکا مضمون بھی پڑھیں گے تو اس کی تشریح میں دی گئی دو مثالیں ضرور آپکے سامنے آئیں گی۔ ایک برطانیہ میں ہونے والا بریگزٹ کا ریفرنڈم اور دوسرے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح۔۔ خورشید صاحب نے ان میں سے صرف ایک مثال دی ہے اور وہ ہے ٹرمپ کی فتح۔۔۔ پوسٹ ٹوتھ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کی فتح کا ذمہ دار نیم پڑھے لکھے طبقے اور نئی نسل کو قرار دیا جو ذہنی طور پر معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ  دیکھنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اور یہاں سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ تحریک انصاف کی کامیابی بھی ایسی ہی ذہنی حالت کی مرہون منت ہے۔

میں ایک گزشتہ تحریر میں مابعد نو آبادیاتی نظام  Postcolonialism  کے ماہرین کی دی گئی ایک اصطلاح کا ذکر کرچکا ہوں۔ اسےEssentialism   کہتے ہیں۔ گو نوآبادیاتی نظام کے ماہرین سے قبل  Feminists اور ماہرین حیاتیات بھی اس اصطلاح کو استعمال کر چکے ہیں تاہم اس وقت اس اصطلاح کو نوآبادیاتی نظام کے مطالعے کے حوالے سے دیکھئے۔

ہر سماجی گروہ اپنے بارے میں کچھ ایسے خصائص Essence پر یقین رکھتا ہے جو اسے دوسرے گروہ سے الگ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مذہب، زبان، رنگ، اور نسل وغیرہ۔۔۔ دنیا کے وہ معاشرے جو نوآبادیاتی استعمار کے شکار ہیں یا رہے ہیں ان میں اپنے کو دوسروں سے الگ اور ممیز کرنے کا رجحان بہت شدت سے موجود ہوتا ہے۔ موجودہ عالمی مالیاتی نظام نے نوآبادیاتی نظام سے مماثلت رکھنے والا تسلط دنیا کے ہر معاشرے پر مسلط کردیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں، بینک اور مالیاتی ادارے ہر ملک کے عوام کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا نوآبادیاتی نظام میں محکومین کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ دنیا کے تمام معاشروں میں Essentialism  کا فروغ ہے۔ ہر معاشرہ اور ہر معاشرے میں موجود ہر سماجی گروہ دوسرے معاشروں اور گروہوں سے جہاں مختلف ہوتے ہیں وہیں وہ کچھ مماثلتیں بھی رکھتے ہیں۔ لیکن Essentialism کے زیراثر گروہوں کے مابین موجود مماثلتیں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔اور اختلافات کو بہت زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔

یہ رجحان آپ کو پوری دنیا میں نظر آئے گا۔ اس رجحان کے زیر اثر اختلافات کو نمایاں کرکے بیان کرنے پر زور دیا جاتا ہے اس لئے آپ بریگزٹ کے مبلغین اور ٹرمپ کی شعلہ بیانی اور زہرافشانی کو بغیر کسی دقت کے محسوس کرسکتے ہیں۔ یورپ میں دائیں بازو کی سیاسی تحریکوں میں بھی یہی پہلو نمایاں ہے۔یہ تمام گروہ اپنے Essence یا اپنی بنیادی ثقافتی شناخت اور ان کی نشانیوں پر اصرار کرتے ہیں۔ اس لئے ہر طرح کی ثقافتی ملاوٹ یا اختلاط کے خلاف ہوتے ہیں۔۔۔۔اور اپنے کو خالص سے خالص کرنے اور رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ درخت کی نشوونما کا انحصار اپنی جڑ سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ  اس سے زیادہ سے زیادہ فاصلہ پیدا کرنے پر ہوتا ہے۔ اگر درخت اپنی جڑ سے زیادہ دور نہ جا پائے تو اس کی نشوونما خطرے میں تصور کی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی معاشروں کی نشوونما دوسرے معاشروں کے ساتھ اختلاط اور لین دین کی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب کا ارتقاء بنیادی طور پر انسانی معاشروں کی اسی صلاحیت کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ لیکن  Essentialism انسانی ترقی کے اس سفر کو پیچھے کی جانب لے جاتی ہے۔ یہ جڑ کی جانب واپسی کا سفر ہے۔

اصل میں Essentialism ایک جذباتی مسئلہ ہے جو حالات کی سنگینی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔حالات کی سنگینی میں شدت اس جذباتی مسئلے کی شدت اور اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس وقت اس رجحان موجودہ اقتصادی بحران نے بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ نو آبادیاتی نظام کا شکار معاشرہ ہے۔ Essentialism دیگر معاشروں کی طرح اس معاشرے کا بھی ایک بہت ہی نمایاں وصف ہے۔ اس معاشرے میں جہاں مغرب کے لیے ایک کشش موجود ہے وہیں ایک عناد بھی بہت نمایاں ہے۔ مغرب کے لیے یہ عناد یکطرفہ نہیں ہے۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لیے ایسا ہی عناد مغربی معاشروں میں بھی موجود ہے۔ مغرب میں رہنے والا ہر پاکستانی اور مسلمان اس کو بآسانی محسوس کر سکتا ہے۔ ہوائی اڈوں پر ہونے والی تذلیل ملازمتوں اور تدریسی اداروں میں سفید فام افراد کو ملنے والا تفوق اور ترجیح، سماجی تعلقات میں روا رکھی جانے والی تفریق، بچوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں ہونے والا سلوک، اور مذہبی شناخت اور مذہبی لباس پر ہونے والی قانون سازی۔۔۔اسی عناد کی چند نشانیاں ہیں۔جواب میں مسلمانوں اور پاکستانیوں میں پیدا ہونے والا ردعمل بھی آپ کے سامنے ہے۔

دہشت گردی کے واقعات میں ان کی شرکت۔۔مغرب میں شریعت کے نفاذ کی کوششیں۔۔اپنی ثقافت اور مذہبی رسومات پر حد سے زیادہ اصرار۔۔مغرب میں موجود مسلمانوں اور پاکستانیوں کے عناد کی علامات ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے وہ لمحہ سوہان روح ہوتا ہے جب پاکستان کا نام دہشت گردی کی کسی کارروائی میں آے۔ ۔پاکستانی کرکٹر کسی بدعنوانی میں ملوث پائے جائیں۔۔پاکستان کا سربراہ بیرون ملک دورے پر صحیح انگریزی نہ بول سکے۔۔کسی پاکستانی سیاسی لیڈر کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہو جایں۔

ایسے میں عمران خان آتے ہیں جو ایک نوآبادیاتی نظام کے شکار معاشرے کے ایک فرد کی تمام تر خصوصیات سے مالا مال ہیں۔ مغربی بودو باش رکھتے ہیں۔ رہن سہن سے لے کر انسانی تعلقات میں مغربی اقدار ان کے ہاں نمایاں طور پر موجود ہیں۔ مغرب کی خواتین میں مقبول و معروف ہیں (جو یہاں رہنے والے ہر پاکستانی کا خواب ہوتا ہے) لیکن اس کے ساتھ ساتھ نمازی بھی ہیں۔ پاکستانی امور میں مغرب کی دخل اندازی کے خلاف بھی ہیں۔ امریکہ کے مقابلے میں طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ موجودہ اقتصادی نظام میں پاکستان کی خود انحصاری کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ لیکن مغرب کے اس دعوے کو بھی تقویت پہنچاتے ہیں کہ ہماری دگرگوں اقتصادی حالت کے ذمہ دار ہم خود (یعنی صرف سیاستدان) ہیں. انکی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں مقبولیت کا سبب ان کا یہی ایک وصف ہے۔ Essentialism  کےشکار قائدین کے ساتھ مخصوص زبان اور لب و لہجہ کے مالک بھی ہیں۔ جس طرح ٹرمپ نے اپنے تمام اقتصادی مسائل کی ایک وجہ مہاجرین کو قرار دیا تھا اور ان کے ساتھ سخت سلوک کا عندیہ دیا تھا اسی طرح عمران خان بھی پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار کرپٹ سیاستدانوں کو قرار دے کر ان کو “اور رلانے” کا عندیہ دیتے رہے ہیں. جیسا کہ عرض کر چکا کہ  Essentialism کے شکار تمام قائدین اپنے Essence کی جانب لوٹنے پر زور دیتے ہیں اور مخالفین کے لئے انتہائی سخت زبان استعمال کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں تحریک انصاف اور تحریک لبیک کے قائدین میں یہ مشترک قدر ڈھونڈنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہوگا۔

Essentialism میں Essence کی تعریف کا معاملہ بھی بہت گھمبیر ہے۔ مختلف گروہوں کے لیے یہ  تعریف مختلف ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کو Essence کی اپنی تعریف پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔اسی طرح تحریک انصاف اور تحریک لبیک کے مابین بھی Essence کی تعریف میں اختلاف ہے مگر معاملے کی نوعیت ایک ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا کہ Essentialism اپنی نوعیت میں ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن اس کو ایک معروضی صورت دینے کے لیے ہر گروہ جب  Essence کی تعریف اور تعبیر کرتا ھے تو یہ تعریف بھی ایک جذباتی پہلو لیے ہوتی ہے۔ ایسے میں حقائق کا نظر انداز ہونا اور ان کا خلط ملط ہو جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔ یہ  Essentialism کا وہ پہلو ہے جہاں اس پر پوسٹ ٹروتھ کا گمان ہوتا ہے

یہ پوسٹ ٹروتھ نہیں بلکہ Essentialism  ہے جس نے حالیہ انتخابات کے نتائج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔  پاکستانی سیاست میں اس رجحان کا مستقبل میں عمل دخل کیا شکل اختیار کرے گا سماجی علوم کے ماہرین کے لیے یہ غور وفکر کا مقام ہے جس کے لیے ذاتی سیاسی پسند ناپسند سے بالا ہونا از حد ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments