تنزیلا شیدی: صوبائی اسمبلی میں پہلی ایفرو سندھی رکن


گو کہ سندھ مذہبی، قبائلی اور ثقافتی تنوع کا مرکز رہا ہے، مگر اس کا ماضی جاگیرداری، وحشت، خونریزی اور غلامی سے بھی بھرا پڑا ہے۔ واحد افریقن سندھی یا شیدی ہی وہ انسان تھےجنہیں غلاموں کی صورت میں یہاں لایا گیا۔ باقی جتنے بھی باہر کے آقا تھے انہوں نے اس دھرتی کے لوگوں کو قتل کیا، غلام بنایا اور لے گئے۔ ہم سندھی ان گھنگریالے بالوں والے سانولے لوگوں کو شیدی کہتے ہیں، اور ان میں سے ایک ہیں تنزیلہ شیدی، جو پاکستان پیپلز پارٹی کی مخصوص نسشت پر پاکستان کی تاریخ کی پہلی میمبر صوبائی اسیمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے تنزیلا شیدی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک بار کاؤنسلر بھی رہ چکی ہیں،اس کے بعد ضلع بدین کی تحصیل ماتلی کی میونسیپل چیئرپرسن نامزد ہوئی تھیں، مگر مقامی قیادت نے تنزیلا کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، شاید اس لیے کہ وہ عورت ہیں، شیدی ہیں، یا پھر وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، جو یہاں کے مقامی جاہل جاگیردار تھے وہ انھیں قطعی طور قبول نہیں کر رہے تھے، کیونکہ ایک عام عورت کا اشرافیہ پر حکومت کرنا انہیں کسی صورت منظور نہیں تھا۔ یہ ان کی توہیں تھی، ان کا جمود ٹوٹ جاتا۔ برحال جو بھی ہوا، اس نے مقامی سوچ کو ظاہر کردیا، مگر یہ فیصلا بالآخر تنزیلا کے حق میں آیا، آج وہ رکن سندھ اسمبلی ہیں۔

تنزیلا شیدی کی کامیابی اور جدوجہد اسی طرح چلی ہے جس طرح دنیا کے باقی ممالک میں چلی۔ تنزیلا مارٹن لوتھر کنگ کے خواب کی تعبیر اور روزا پارک کے احتجاج کا تسلسل ہے، یہ تسلسل شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہو، یہ عورت پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کے لیے واقعی مارٹن لوتھر کنگ کا خواب لگتی ہے۔ کیونکہ ظلم، جبر، سماجی تفاوت کے باوجود بھی انہوں نے جدوجہد نہیں چھوڑی۔ مستقل مزاجی انہیں ورثے میں ملی ہے، تنزيلا شيدی کا کہنا ہے کہ ان کے اباؤ اجداد کا شجرہ تنزانیہ سے ملتا ہے۔ تنزیلا نہ صرف نظریاتی سیاسی کارکن ہیں، بلکہ سندھ یونیورسٹی جام شورو سے کمپیوٹر میں ماسٹرز بھی کر رکھا ہے۔

سرزمین سندھ میں آج بھی ایسے قبائل ہیں جن کے ساتھ سماجی طور تیسری درجے کے شہری جیسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے، مگر تنزیلا کی یہ کامیابی، رنگ نسل، مذہب، طبقات، کام کے بنیاد پر نفرت کے نام پر ایک زوردار تمانچہ ہے۔ آج بھی انہیں کچھ نام نہاد سماجی اور سیاسی ارکان دلت کا خطاب دیتے ہیں، مگر انہوں نے کبھی بھی اس دلت نامی سوچ کواپنے دماغ میں پروان نہیں چڑھنے دیا۔ آج بھی ان کا مشن، ذات پات، رنگ نسل، مذہب اورکلاس سے ہٹ انسانیت کی خدمت ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بات پر بھی بحث ہوتی رہی کہ وہ اب محض سندھی ہیں، ان کے ساتھ افریقا کا ٹیگ نا جوڑا جائے، مگر تنزیلا بھلے ہی گذشتہ تین صدیوں سے سندھی ہیں، پر ان کی نسل پر ہونے والے سفاکانہ مظالم ان سے افریقا کا ٹیگ کبھی نہیں ہٹنے دیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر اسمبلی میں پہنچی ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صرف ایک شیدی خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر، بلکہ اس سفر میں یہ کامیابی ان کی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم پی اے بننا کوئی بڑی کامیابی نہیں، یہ تو ایک پرعزم جدوجہد کی شروعات ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی بے حد شکر گزار ہیں جنہوں نے ان کو یہ عزت بخشی۔

شیدی کیمونٹی گذشتہ تین صدیوں سے سندھ اور بلوچستان میں آباد ہے، سندھ کے تالپور ان کو غلاموں کی صورت میں یہاں لائے تھے، انھی میں سے سندھ کے امر کردار شھید جرنیل ھوشو شیدی ہیں، جو تالپوروں کے دور 1843ء میں دبی کے میدان پر انگریزوں سے لڑتے لڑتے شھید ہوگئے، ان کا ایک مشہور نعرا ” مرسون مرسوں پر سندھ نہ ڈیسوں” آج بھی سندھ کی پہچان ہے، شالمین شیدی، کلہوڑا دور میں جرنیل تھے۔ تالپوروں کی جانب سے حیدرآباد کے تاریخی قلعے پر قبضے کے بعد ان کو سندھ بدر کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ محمد صدیق مسافر ایک بہترین شاعر، استاد اور سماجی رہنما بھی اسی قبیلے سے گذرے ہیں، یاد رہے کہ شیدی، یا گھنگھریالے بالوں والے یہ لوگ پاکستان میں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان مٰیں ہی آباد ہیں، مکران بلوچستان میں ان کو اب مکرانی، قمبرانی، شیدی بلوچ کہا جاتا ہے۔ اور سندھ میں شیدی، ڈاڈا اور قمبرانی پکارا جاتا ہے۔ ان کا اس خطے میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ اور بلوچستان صدیوں سے جاگیرداروں کی غلامی میں رہا ہے۔

تنزیلا شیدی کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی میں یہ خواب لے کر داخل ہوں گی کہ آئندہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے شیدی لفظ قابل توہین نہیں بلکہ قابل عزت و احترام سمجھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کولمبس نے امریکا دریافت کیا، اسی طرح بلاول بھٹو نے انہیں دریافت کیا۔

سندھ میں آج بھی یہ قبیلا منفرد نظر آنے اور تعلیم بہت کم ہونے کی وجہ سے سماجی حیثیت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے علاوہ سماج میں موجود جاگیردارانہ سوچ، اور طبقاتی فرق نے اب رنگ اور نسل کی چادر اوڑھ لی ہے، اور دوسری وجہ معاشی پسماندگی ہے، اس قبیلے سمیت باقی درواڑ قبیلے بھی اب صرف طبقاتی فرق کا شکار ہیں۔ دراوڑ قبائل تو اب اشرافیہ سماج میں گھل مل رہے ہٰیں، مگر شیدی برادری کو اب بھی کافی وقت لگے گا، کیونکہ وہ سماج میں اب بھی ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں، ان کا اس سماج میں گھلنا ملنا تب ممکن ہے جب سماج اپنی سوچ بدلے، شیدی قبائل میں تعلیم آئے، تنزیلا پر سب سے اہم ذمہ داری یہ کہ وہ شیدی برادری کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی طور پر باقی غلام قبائل کے لیے بھی کام کریں، خصوصی طور پر تعلیم اور ہنر کے شعبوں میں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ تنزیلا کبھی بھی محلات کو دیکھ کر جھونپڑیوں میں بسنے والے غریب مسکین لوگوں کو نہیں بھولیں گی، وہ ووٹوں کی خرید و فروخت کا حصہ نہیں بنیں گی، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں تنزیلا شیدی جرات کا نام ہے، یہ ہوشو شیدی کی للکار ہیں، مارٹن لوتھر کنگ کے خواب کی تعبیر ہیں، اولیور لا کی نظریاتی بساط  ہیں، سول رائٹس موومینٹ کی ہیروئن روزا پارک کی مزاحمتی جدوجہد کا تسلسل ہیں، وہ ایک زندہ ضمیر کا نام ہیں، وہ سندہ کی ہر مظلوم عورت کی آواز ہیں، امید ہے کہ یہ آواز جب بھی اسمبلی کے فلور پر گونجے گی تو ظلم کے خلاف، حرف حرف حق کے لیے ہوگا، بول بول میں سچائی اور سندھی مسکین مزدورں کا درد ہوگا۔ تنزیلا ہم سب آپ سے بہت پیار کرتے ہیں، کیونکہ آپ مجھ سمیت پورے سندھ کا فخر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).