لالہ کا پھول۔۔۔ جو مرجھا گیا


(اپنی دوست اور صحافی لالہ رخ حسین کی یاد میں)

اس کو دیکھیں تو یہ احساس ہوتا تھا کہ جیسے فضا میں دھنک کے رنگ بکھر گئے ہوں، بے ساختہ ہنسی کی جلترنگ سی بج اٹھی ہو۔ اور جیسے موسم کی پہلی بارش کے بعد مٹی کی سوندھی سی خوشبو پھیل گئی ہو۔ پھر ایسی نتھری دلکش فضا میں شاخ پہ جھومتے سرخ لالہ کے پھول کا تصور کریں۔ اپنی پنکھڑیوں میں چاہت اور خلوص کے گہرے رنگ سمیٹے مسکرا رہا ہو۔۔۔ تو یہ ہے تذکرہ میری عزیز ترین دوست لالہ رخ کا جو اپنے اطراف خوبصورتی بکھیرتی قریبا پانچ برس قبل مارچ 2013 کی بیس تاریخ کو دنیا سے رخصت ہوئی۔

لالہ رخ جسے گھر والوں اور دوستوں نے پیار سے ہمیشہ ”لالی” پکارا، صحافت کے افق پہ چمکنے والا وہ ستارہ تھی جس کی جرات، حق پرستی اور قلم کی طاقت کبھی اس کی روشنی کو ماند نہیں ہونے دے گی۔ ملک کے مشہور اخبارات اور جریدوں میں جانفشانی سے کام کرنے والی لالہ رخ۔ پاکستانی صحافت کی واحد مثال کہ جسے ضیا الحق کی فوجی آمریت کے دور میں ”مساوات ” اخبار کی بندش کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں فوجی کورٹ نے قید کی سزا سنائی۔ جسے اس نے بخوشی قبول کیا حالانکہ اس وقت لالی ایک سالہ بچی کی ماں تھی۔

گو اس کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال ہو رہے ہیں مگر آج بھی یہ لگتا ہے کہ وہ یہیں کہیں ہمارے درمیان ہی ہے اور مسکراتی ہوئی اچانک کہیں سے آ جائے گی اور بے ساختہ ہنسی کے ساتھ اپنا ہاتھ بڑھا دے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پہلی بار اس نے گرم جوشی سے مجھ سے اپنا ہاتھ ملایا تھا۔ ”میں لالہ رخ ہوں”۔۔۔ یہ ایک احتجاجی جلسہ تھا۔ جس کا اہتمام پری میڈیکل ایکشن گروپ کی فرسٹ ڈویزنرز طالبات نے کیا تھا جو بھٹو صاحب کی حکومت میں نافذ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے میڈیکل میں داخلہ سے محروم تھیں۔ میرا تعلق ان ہی طالبات میں سے تھا۔ لالہ رخ جلسے میں اپنے ترقی پسند گروپ کی جانب سے ہماری سپورٹ کے لئے موجود تھیں۔ یہ غالبا 1976 کا اواخر تھا۔ میں نے انٹرمیڈیٹ کیا تھا اور لالہ رخ نوجوان اہم صحافی کے طور پہ اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی، اپنی شہرت منوا چکی تھیں۔

اسی زمانہ میں اس کی شادی حال ہی میں اس وقت کے نمایاں ترقی پسند نوجوان رہنما زاہد حسین سے ہوئی تھی۔ باوجود عمر کے تفاوت کے جانے کون سی قدر مشترک تھی کہ جس نے ہم دونوں کو عمر بھر کے لئے قریب کر دیا۔ اور ایسی مضبوط دوستی کو جنم دیا کہ جو زندگی بھر پہ محیط تھی۔ مجھ سے دوستی کے بعد وہ ہمارے گھر کا فرد سا بن گئی اور نجانے کب وہ آپ سے تم کا عنوان ہوئی اس کا تو پتہ ہی نہ چلا۔ میرا لالی سے دھرا رشتہ تھا۔ اس رشتہ میں دوستوں جیسی بے تکلفی اور بڑی بہنوں جیسا خلوص اور غیر مشروط پیار تھا۔ جو میری زندگی کا اہم اثاثہ ہے۔

لالہ رخ نے سندھ سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں جنم لیا جہاں گھر میں سندھی، اردو اور انگریزی بولی جاتی تھی۔ لالی کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ ان کی والدہ گھریلو خاتون جبکہ والد وکیل تھے۔ کراچی کے تعلیمی ادارے سینٹ جوزف کونوینٹ سے انٹر سائنس (پری میڈیکل)کرنے کے بعد لالی نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔ اپنی بھرپور ذھانت، زندہ دلی، خوش مزاجی اور ترقی پسندی کی وجہ سے جلد ہی ان کا شمار جامعہ کی مقبول طالبات میں ہونے لگا۔ ان کا تعلق طلبا کی بائیں بازو کی اہم تنظیم این ایس ایف (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن)سے تھا۔ یہ ساٹھ کی دھائی کا آخر اور ستر کی ابتدائی دور کا زمانہ رہا ہو گا۔ این ایس ایف ملک میں جمہوری حکومت کی حامی اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف سرگرمِ عمل رہی ہے۔ لالہ رخ نے اپنی مقبولیت کے سبب جامعہ میں جمیعت (رجعت پسند دائیں بازو کی طلبہ جماعت) کے نامزد نمائندے کو ہرا کر جوائنٹ سیکرٹری کا الیکشن جیتا تھا۔ یہ بائیں بازو کی جماعت این ایس ایف ہی تھی کہ جس نے 1968 میں طویل جدوجہد کے ذریعہ ایوب خان کی فوجی حکومت کا خاتمہ کیا۔

وہ زمانہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں سوشلزم اور قومی آزادی کے ہیروز مثلا ما ؤزے تنگ، ہوچی منہ، لیلی خالد، چی گویرا کی تحریکوں کا زور تھا۔ جس کا اثر پاکستانی طلبا پہ ہونا لازم تھا۔ لالہ رخ کے زمانے میں دوسری طالبات جیسے نرگس ہود بھائی، مہ ناز قریشی اور بعد کے زمانے میں نسرین زہرہ، نفیسہ ہودبھائی اور گوہر تاج جیسی طالبات بھی سیاست میں متحرک تھیں اور جنہوں نے عملی طور پر بائیں بازو کی سیاست کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ مثلا نسرین زہرہ نے مساوات اخبار کی بندش کے خلاف احتجاجاً جیل کی سزا بھگتی۔ اگلا نام حکومتی فہرست میں گوہر تاج کا تھا جو ہڑتال ختم ہونے کی وجہ سے جیل کی قید سے بچ گئیں۔ لالہ رخ اپنے نظریات سے پوری طرح کمٹٹ تھیں اور زمانہِ طالب علمی میں پمفلٹ، پوسٹر، احتجاجی جلسوں کے علاوہ اسٹڈی سرکل میں نظریاتی تعلیم کا پرچار کرتی تھیں۔

صحافت کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے عملی صحافت کا، آغاز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے میگزین ”میڈیکل گزٹ ” سے کیا۔ پھر پاکستان اینڈ گلف اکنامسٹ کے لیے کام کیا۔ 1972 میں ایک نئے شروع ہونے والے اخبار ” دی سن ” (The Sun) میں ملازمت اختیار کی۔ پھر جلد ہی جنگ گروپ کے زیرِ اہتمام ”ڈیلی نیوز” سے وابستہ ہوئیں۔ 1981 میں اس وقت کے مشہور میگزین ”میگ” کے لئے انٹرویوز اور فیچر رائٹنگ کا سلسلہ بطور بورڈ ممبر جاری کیا۔ اس ملازمت کو 1983 میں چھوڑنے کے بعد مشہور میگ “شی” (She) کی ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ اے پی پی نیوز ایجنسی سے بھی وابستہ رہیں اور کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں پڑھایا۔ انہوں نے عملی طور پر صحافت سے وابستگی میں مختصر مدت میں وہ نام کمایا جو لوگ زندگی بھر کام کر کے نہیں حاصل کرتے۔

عملی صحافت ان کی معاش کا ذریعہ تھی لیکن جو کام ان کے لئے بہت اہم تھا وہ ان کے ترقی پسند نظریات کا امین اور پر خطر تھا۔ اس راہ پر چلنے والوں کو سفر کی صعوبتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ لالی اس راہِ وفا میں قربانی کے لئے تیار تھیں۔ مثلا انہوں نے جنرل ضیا کے دور میں شروع ہونے والی مساجد اسکولوں کا دورہ کیا اور وہاں کے اساتذہ اور طلبا کے انٹرویوز لیئے۔ ان کے اس کام کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو شاید آج صورتحال بہتر ہوتی اور وہ نہ ہوتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لارنس روڈ کے علاقہ کے کاریگروں کے تفصیلی انٹرویوز بھی لئے جن میں مستری، خراد مشین پر کام کرنے والے اور ویلڈرز وغیرہ شامل تھے۔ لالی کا خلوص، محبت اور قلم کی طاقت عوامی مسائل اور حقوق کی بحالی کے لئے تھی۔ یہی نہیں انہوں نے حکومتوں کے زیرِ عتاب ادیب، شاعر اور دانشوروں کے بھی تفصیلی انٹرویوز کئے۔ مثلا جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور سبطِ حسن وغیرہ۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹں دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2