ایک جنرل اور ایک صحافی کے نام


پاکستان میں جس تیزی سے میڈیا چینلوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی حساب سے ان چنیلوں میں مخصوص ”کردار“ بھی سامنے آتے رہتے ہیں جو اپنے غلط اندازوں، لغویات اور بے تکے تبصروں سے عام لوگوں کو ذہنی اضطراب میں ڈالنے کا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہ اکثر ایسے موضوعات پر لب کشائی کرتے ہیں جس بارے انھوں نے کبھی تحقیق گوارہ کی ہے نہ ہی اس بارے ضروری معلومات رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ ”کردار“ اپنے خیال اور اندازوں کا سہارا لے کر ایسی بھونڈی قسم کی معلومات سامنے لے آتے ہیں جس کا حقیقت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

گزشتہ دنوں ایک پاکستانی چینل میں ایسے ہی کچھ صحافی اور تجزیہ نگار اپنی کم علمی اور موضوع پر معلومات نہ ہونے کا رونا رونے کے بجائے یکطرفہ طور پر غیر ضروری معلومات فخریہ انداز میں پیش کر رہے تھے۔ ایک پروگرام میں محمد مالک اور ایک اور شخص لیفٹنٹ جنرل (ر) امجد شعیب بھی موجود تھے۔ ان دونوں صاحبان نے اپنی مختصر سی گفتگو میں اپنے اندر کی کثافت کو باہر نکالا۔ ساتھ رضا رومی یہ تماشا دیکھتے رہے اور منیب فاروق نے آخر میں پہلے دونوں صاحبان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ عجیب بات ہے آج کل جو گلگت بلتستان کا نام صحیح طرح نہیں لے پاتے اور کبھی اس علاقے کو دیکھا بھی نہیں ہے مگر اس خطے کے بارے میں ایسے تجزیات کرتے ہیں جس سے نہ صرف ایک منفی تاثر پھیلتا ہے بلکہ یہاں کے لاکھوں عوام کی دل آزاری بھی ہو جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کی احساس محرومی اور حالات کی خرابی میں بھی ایسے ہی کرداروں کا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے کبھی گلگت بلتستان آنے کی زحمت نہیں کی مگر اسلام آباد میں بیٹھ کر یہاں کے عوام کی قسمت کے فیصلے لکھتے رہے ہیں۔ جنرل صاحب اپنی گفتگو میں پشتون تحفظ موومنٹ کو بھی گلگت بلتستان سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے پیارے امجد شعیب صاحب آپ ذرا ہر دوسرے بندے پر شک کرنے کی پالیسی سے باہر نکل کر دیکھیں تو حقائق بالکل ایسے نہیں ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ علیحدگی پسند تحریکیں جنم لے رہی ہیں تو یہ بھی آپ جیسے کرداروں کے غلط اندازوں، پالیسیوں اور تجزیوں وجہ سے ہو رہا ہے۔ ورنہ یہاں کے لوگ کل بھی محب وطن تھے اور آج بھی۔

امجد صاحب! آپ کو تو معلوم ہوگا دیامر بھاشا ڈیم کا نام پہلے صرف بھاشا تھا۔ جب کہ آدھا دیامر ڈوب رہا تھا۔ عوامی احتجاج کے بعد دیامر کا نام تو لگا مگر دیامر ڈیم کے متاثرین اب تک اپنے جائز حقوق کے لئے چیخ رہے ہیں۔ کبھی اس پر بھی بات کرو نا۔

امجد صاحب! آپ خود کہہ رہے کہ گلگت بلتستان سی پیک کا انٹری پوائنٹ ہے اس میں گلگت بلتستان کو کتنا حصہ مل رہا ہے ذرا آپ ہی اس پر بات کریں نا۔ اس پر گلگت بلتستان والے اگر بات کریں تو کئی کردار بیٹھے ہوئے ہیں جو فوراً غداری اور دشمن ممالک سے پیسے لینے کے بلاجواز الزامات لگا کر زبان بند کر وا دیتے ہیں۔

امجد صاحب! آپ کو تو گلگت بلتستان کے بارے میں بڑی معلومات ہیں تو آپ یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ کس طرح گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو عوامی امنگوں کے برعکس خفیہ طور یہاں مسلط کیا گیا۔ آپ کو اگر غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے سے موقع ملے تو ایسے کسی ٹی وی چینل میں اس پر بھی بات کیجئے گا۔ یہاں کے عوام آپ کے ممنون ہوں گے۔

امجد صاحب! میں بطور صحافی گزشتہ دنوں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے اسلام آباد ریڈ زون میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کی کوریج کے لیے گیا ہوا تھا۔ اس احتجاج کے آخر میں میرے کانوں نے جس طرح کے نعرے سنے مجھے اب تک ان پر اعتبار نہیں آرہا۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان میں صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں سٹیٹس اپ ڈیٹ کریں اور کسی کو پسند نہ آئے تو نیشنل ایکشن پلان کا ڈنڈا چل جاتا ہے یا پھر شیڈول فور نامی دوا جو اب گلگت بلتستان کے باسیوں کے لیے پیراسٹامول کی ٹیبلٹ کی طرح دستیاب ہو چکی ہے، زبردستی کھلا دی جاتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس موضوع کو بھی ضرور زیر بحث لائیں گے۔

امجد صاحب! آپ تو 1947 سے مکمل پاکستانی ہیں۔ اور گلگت بلتستان والے اسی وقت سے آدھے پاکستانی۔ آپ تھوڑی سی ہمت دکھا کر ان کو پورے پاکستانی بنانے کی بات ضرور کیجئے گا۔ آپ کی حلقے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندے جاتے ہیں جب کہ گلگت بلتستان والوں نے ان اداروں کا نام ہی سنا ہے۔ آج تک یہاں پیدا ہونے والا بندہ اس قانون ساز ادارے میں نہیں گیا۔ البتہ یہاں جو پالیسیاں ان کی مرضی و منشا کے بغیر بنتی رہی ہیں ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی منظور کرتا رہا ہے۔ تو ایک اور گزارش یہ ہے کہ ذرا اخلاقی جرات دکھا کر اس علاقے کو آئینی دائرہ کار میں لانے اور جائز حقوق دینے کی بات بھی کریں نا۔ ہم آپ کے احسان مند رہیں گے۔ ایوان بالا اور زیریں کے دروازے ہمارے لیے بند، باقی گلگت بلتستان کے حوالے سے ٹی وی پروگراموں میں بھی آپ جیسے لوگوں کا قبضہ ہے۔ سوشل میڈیا میں آواز اٹھانے والوں کے گلے شیڈول فور کی ہار ڈال دی جاتی ہے تو آپ ہی بتا دیں یہ لوگ آخر کریں تو بھی کیا کریں۔

جناب عبدالمالک صاحب اور امجد شعیب صاحب! آپ دونوں جس قسم کی گفتگو کر رہے ہیں اور الزامات لگا رہے ہیں ان کا بہترین جواب گلگت بلتستان کے کونے کونے میں موجود شہدا کے وہ مزار ہیں جن کے اوپر لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم یہاں کے باسیوں کی اس ملک سے محبت اور وفاداری کا اظہار کر رہا ہے۔ وادی شہدا کے سپوت، فخر گلگت بلتستان لالک جان اور ایسے ہزاروں شہدا کی روحیں آج تم جیسے لوگوں کو غلط ثابت کر رہے ہیں جو اس دھرتی کو غدار اور باہر سے پیسے لینے والوں کی لسٹ میں شامل کرتے ہو۔

گلگت بلتستان کے کچھ سادے لوگ اس نفرت انگیز اور دل آزاری پر مبنی پروگرام کے بعد پیمرا سے ایکشن لینے کی اپیل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھلا کون سمجھائے کہ تمہاری آواز جو چنار باغ میں موجود چنار کے درختوں سے باہر نہیں نکلتی تو پیمرا جیسا ادارہ کیوں کر سنے۔ ایک طرف تم گلگت بلتستان سے، دوسری طرف آدھے پاکستانی اور تیسری طرف امجد شعیب جیسے محب وطن لوگوں کی نظر میں غدار۔ ایسے میں کیونکر کوئی تمہاری بات سنے اور اس پر ایکشن لے۔ یہ سہانے خواب دیکھنا بند ہی کرو تو بہتر ہے۔

اس پروگرام میں امجد صاحب کہتے ہیں کہ ملک سے باہر کام کرنے والے خاص طور پر بلتی لوگ حالات خراب کرنے میں ملوث ہیں۔ امجد صاحب کے بقول انہیں انڈیا لے جا کر برین واش کیا گیا ہے۔ یہ سہولت کار بھی ہو سکتے ہیں اور خود بھی ایسے کاموں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ایسے زیادہ تر لوگ مڈل ایسٹ اور گلف ممالک میں مقیم ہیں۔

اب یہاں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ امجد صاحب نے جس طرح سے ایک پورے قوم اور خطے پر الزام لگایا اسے ثابت کریں۔ ملک دشمن عناصر کے نام سامنے لے آئیں۔ انڈیا جانے اور رقوم حاصل کرنے والوں کی فہرست دے دیں۔ ایسے لوگ نہ صرف پاکستان کے بلکہ اس خطے کے بھی دشمن ہیں جو بیرون ممالک بیٹھ کر اس ملک اور علاقے کے خلاف گھناؤنی سازشیں کر رہے ہیں۔ یہ سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔ سب مل کر ان کے خلاف ایکشن لیں گے۔

دوسری بات یہ کہ اگر آپ ان تمام الزامات کو ثابت نہیں کر سکتے تو دوبارہ اسی ٹی وی کے پروگرام میں جائیں اور اسی صحافی کے ساتھ مل کر یہاں کے پورے عوام سے معافی مانگ لیں۔ آپ کو اس حوالے سے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اب جب آپ ان دونوں صورتوں میں سے کسی پر بھی پورا نہیں اترتے تو یہاں کے لوگ نہ صرف آپ پر بلکہ آپ کی سوچ اور خیالات کو رد کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

اور ہاں آخر میں یہ ایک صحافی نے گلگت بلتستان کو آغا خان اسٹیٹ بنانے کا بھی الزام لگایا ہے۔ اس بات سے ہی ان کی کم فہمی اور شخصیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مجھے تو شرم اس بات پر آتی ہے جن کو اپنے ملک کے عام معروضی حالات اور جغرافیے کا صحیح علم نہیں وہ کیسے کسی عالمی ایشو پر بہتر تفصیلات دے سکتے ہیں۔ عمران خان کی ایک بات مجھے اچھی لگی کہ احتساب اوپر سے ہونا چاہیے بالکل اسی طرح پرائیویٹ اداروں میں احتساب اوپر سے ہونا چاہیے اور سب سے پہلے دل آزاری پر مبنی اور غلط معلومات پھیلانے والے ایسے ”کرداروں“ کو اداروں سے باہر نکال دینا چاہیے۔ میں یہ ڈیمانڈ اس بات کو سمجھ کر بھی کر رہا ہوں کہ میڈیا بھی مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسا مشکل تو ضرور ہے پر نا ممکن نہیں۔

مذہب اور مسلک کے نام پر اسٹیٹس بنانے کے مشورے دینے اور الزامات لگانے والو! یہ بات سمجھ لو دنیا مذہب اور مسلک کی بحثوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ تمھارے پاس اور ہے بھی کیا بس یہی چورن سازشی تھیوریاں بھیجتے رہو۔ اس کے خریدار بھی اچھے خاصے ہیں۔

وہی ﺑﮯ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﺒﺎﺣﺜﮯ، وہی ﺑﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﻨﺎﻗﺸﮯ
وہی ﺣﺎﻝ ﺯﺍﺭ ہے ہر ﻃﺮﻑ، ﺟﻮ ﺭﻭﺵ ﺗﮭﯽ ﮐﻞ وہی ﺁﺝ ہے

وہی ﺍﮨﻞِ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﯿﮟ، وہی ﻧﻔﺮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﺘﯿﮟ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻻ ﻃﺮﺯِ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ، وہی ﻣﺼﻠﺤﺖ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ہے

ﮐﺒﮭﯽ ﭼﮩﺮﮦ ﭘﻮﺵ ﻧﺪﺍﻣﺘﯿﮟ، ﮐﺒﮭﯽ ﺳﯿﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ
ﺍﮎ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﻓﺸﺎﺭِ ﺩﻡ ﮐﮯ ﺍﺛﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﻤﺎﺝ ہے

ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ہو ﮐﻮﺋﯽ ﺯﺧﻢ ہو، وہی ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺯہر ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺭﺿﮧ ہﻮ ﮐﮧ ﺳﺎﻧﺤﮧ، ﺑﺲ ﺍﮎ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺳﺎ ﻋﻼﺝ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).