برطانیہ ہندوستان سے کل کتنی دولت لوٹ کے لے گیا؟


تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی

امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے ‘دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز’ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

بنگال قحط

تاریخ دانوں کے مطابق ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں آنے والے پے در پے قحطوں کی وجہ حکومتی پالیسیاں تھیں

اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔

اگر اس قحط کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑ کے قریب ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، پھر اتنے لوگ کیوں بھوکوں مر گئے؟

وائٹ نے ان قحطوں کی وجہ ‘تجارتی استحصال’ (commercial exploitation) قرار دی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہم صرف ایک قحط کا ذکر کرتے ہیں جو 1769 میں بنگال ہی میں آیا تھا۔

نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیہ سین نے اس قحط میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ اس دور کا ایک منظر ایک انگریز ہی کی زبانی دیکھیے:

‘دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔’

شاندار فصل کے اندر ڈھانچے

فصلیں تو اپنے وقت پر تیار ہوئیں لیکن اس وقت تک واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ 1769 کی یہی کہانی پونے دو سو سال بعد ایک بار پھر مشرقی بنگال میں دہرائی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا اخبار کا 16 نومبر 1943 کا تراشہ:

‘مشرقی بنگال میں ایک ہولناک مگر عام منظر یہ تھا کہ نصف صدی کی سب سے شاندار فصل کے دوران پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آ جاتا تھا۔’

ساحر لدھیانوی نے اس قحط پر نظم لکھی تھی، جس کے دو شعر:

پچاس لاکھ فسُردہ، گلے سڑے ڈھانچے / نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے / بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

قحط تو قدرتی آفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیا قصور؟ مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ اس بارے میں لکھتے ہیں:

‘ہندوستان میں آنے والے خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بےرحمانہ استحصال، اجناس کی غیرمتوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔’

ایک چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ ہزاروں میل دور کسی ملک میں کروڑوں لوگ کی زندگیوں اور موت پر قادر ہو جائے؟

اس کے لیے ہمیں تاریخ کے چند مزید صفحے پلٹا ہوں گے۔

1498 میں پرتگیزی مہم جو واسکو ڈے گاما نے افریقہ کے جنوبی کونے سے راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان کو سمندری راستے کے ذریعے یورپ سے منسلک کر دیا تھا۔ آنے والے عشروں کے دوران دھونس، دھمکی اور دنگا فساد کے حربے استعمال کر کے پرتگیزی بحرِ ہند کی تمام تر تجارت پر قابض ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پرتگال کی قسمت کا سورج نصف آسمان پر جگمگانے لگا۔

واسکو ڈے گاما

پرتگیزی مہم جو کالی کٹ کے راجہ کے دربار میں۔ اس نے ہندوستان کا سمندری راستہ دریافت کر کے یورپ اور ایشیا کو منسلک کر دیا

ان کی دیکھا دیکھی ولندیزی بھی اپنے توپ بردار بحری جہاز لے کے بحرِ ہند میں آ دھمکے اور دونوں ملکوں کے درمیان جوتم پیزار ہونے لگی۔

انگلستان یہ سارا کھیل بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، بھلا وہ اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہ جاتا؟ چنانچہ ملکہ الزبیتھ نے ان دو ملکوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دسمبر 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کروا کر اسے ایشیا کے ملکوں کے ساتھ بلاشرکتِ غیرے تجارت کا اجازت نامہ جاری کر دیا۔

لیکن انگریزوں نے ایک کام کیا جو ان سے پہلے آنے والے دو یورپی ملکوں سے نہیں ہو سکتا تھا۔ انھوں نے صرف جنگ آمیز تجارت پر ساری توانائیاں صرف نہیں کیں بلکہ سفارت کاری پر بھی بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ٹامس رو جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بند دروازے کھول دے۔

مغلوں کی طرف سے پروانہ ملنے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں ایک کے بعد ایک تجارتی اڈے قائم کرنا شروع کر دیے جنھیں فیکٹریاں کہا جاتا تھا۔ ان فیکٹریوں سے انھوں نے مصالحہ جات، ریشم اور دوسری مصنوعات کی تجارت شروع کر دی جس میں انھیں زبردست فائدہ تو ہوتا رہا، لیکن جلد ہی معاملہ محض تجارت سے آگے بڑھ گیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp