سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال


ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے سیاست سے ہمارا تعلق خوابوں اور کتابوں کے حوالے سے تھا یعنی ہم کتابیں پڑھتے تھے اور ایک ایسے معاشرے کے خواب ضروردیکھتے تھے جو امن، انصاف اور مساوات پر مبنی ہو گا لیکن عملی سیاست کی ہمیں الف بے بھی نہیں پتا تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کے لڑکوں نے جب مذہب کے حوالے سے ہمیں سیاست یا سیاست کے حوالے سے مذہب سکھانے کی کوشش کی تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان ہیں تو پھر یہ کون ہوتے ہیں، ہمارے مذہب کے بارے میں فیصلے صادر کرنے والے۔ بھئی سیاست کرنی ہے تو کرو، مذہب کے ٹھیکے دار تو نہ بنو۔ یہ باتیں ہمیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ تیرہ اگست کو ہم سندھ اسمبلی کی تقریب حلف برداری دیکھنے چلے گئے تھے اور وہاں ہمیں چند لوگوں کے اسی طرح کے رویے دیکھنے کو ملے لیکن پہلے اچھی باتیں کر لی جائیں۔

عام حالات میں سول سوسائٹی کے لوگوں کو اسمبلی جانے کے لئے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن تیرہ اگست کا معاملہ مختلف تھا۔ اس روز نومنتخب اراکین کی تقریب حلف برداری تھی۔ ان میں سے بہت سے پہلی مرتبہ ایوان میں آئے تھے۔ ان کے رشتہ دار اور پارٹی کارکن انہیں حلف اٹھاتے دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ اسمبلی جانے والے راستے پر ٹریفک جام ہو گیا تھا۔ روبینہ، نیاز اور میں کار سے اترے اور پیدل اسمبلی کی طرف چل دیے۔ گیٹ پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ پاس دکھا کر ہم اندر داخل ہوئے تو ایک اور مرحلے کا سامنا تھا۔ وزیٹر گیلریوں کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے اور پریس گیلری کے سامنے کارکنوں کا ہجوم جمع تھا۔ بڑی مشکل سے ہم اندر داخل ہوئے۔ ہمارے اور منتخب نمائندوں کے درمیان ایک منزل کی بلندی (ہم بلندی پر تھے) اور شیشے کی دیوار حائل تھی۔ اس وقت تک ایوان میں چند نمائندے ہی پہنچے تھے۔ ان چند میں سے ہم صرف ایک آدھ کو ہی پہچانتے تھے ۔ آہستہ آہستہ ایوان بھرتا چلا گیا، پیپلز پارٹی کے لوگ آئے، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے آئے جب کہ جی ڈی اے، پی ایم ایل نون اور تحریک لبیک کے نمائندے بھی آٹے میں نمک کے برابر موجود تھے۔ پریس گیلری کے باہر سیاسی کارکنوں کا اندر آنے کے لئے جھگڑا ہوتا رہا اور بالآخر انہیں اندر آنے کی اجازت مل گئی۔ ایوان میں عذرا پیچو بھی موجود تھیں لیکن ان کی پارٹی کے لوگوں نے ان کی آمد کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا جب کہ فریال تالپور سے پارٹی کی ساری خواتین اور کچھ مرد حضرات بھی سلام دعا کرتے نظر آئے۔ اتنے برس اسمبلی کا حصہ رہنے کے بعد پہلی مرتبہ نثار کھوڑو مہمانوں کی نشست پر بیٹھے نظر آئے۔

تھوڑی دیر بعد اسپیکر کی آمد کا اعلان ہوا۔ انہوں نے عوامی نمائندوں کو سندھ اسمبلی کی تاریخی اہمیت یاد دلانے کے بعد پہلے خود حلف اٹھایا اور اس کے بعد نمائندوں سے ان کی مرضی کے مطابق سندھی، اردو اور انگریزی میں حلف لیا۔ انگریزی میں صرف ایک نمائندے نے حلف اٹھایا۔ ہماری کرسی کے سامنے چار پانچ مرد حضرات شیشے کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہو گئے تھے اور روبینہ کو انہیں بار بار احساس دلانا پڑتا تھا کہ ان کی وجہ سے میں کارروائی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ لیکن ایک ہٹتا تھا تو تھوڑی دیر بعد ہی کوئی دوسرا اس کی جگہ آ کے کھڑا ہو جاتا تھا۔

گیلریاں سیاسی کارکنوں سے بھری ہوئی تھیں، اس لئے تھوڑی دیر بعد بھٹو کے نعرے لگنا شروع ہو گئے۔ وہ خاموش ہوئے تو پی ٹی آئی والوں نے اٹھ کر نعرے لگائے۔ ایک چھوٹے سے گروپ نے شیر کے لئے بھی نعرے لگائے۔ گیلریوں میں تو سیاسی کارکنوں کے نعرے لگانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر جب تحریک لبیک کا منتخب نمائندہ اپنی نشست سے اٹھ کر دستخط کرنے جا رہا تھاتو اس نے ایوان کے اندر دونوں ہاتھ بلند کر کے نعرہ بلند کیا، اس کے ساتھ ہی ہماری گیلری میں شیشے سے چپکے ہوئے تین چار لوگوں نے’’تاجدار ختم نبوت زندہ باد اور لبیک لبیک‘‘کے نعرے لگانا شروع کر دئے اور ایوان میں موجود ان کا منتخب نمائندہ اشاروں سے انہیں شاباشی دیتا رہا۔ چلئے یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ سب ہی اپنی سیاسی پارٹی کے نعرے لگا چکے تھے لیکن پھر انمیں سے ایک شخص اچانک گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف مڑااور جارحانہ انداز میں بولا ’’ کیا آپ لوگ ختم نبوت میں یقین نہیں رکھتے؟ آپ لوگ میرے نعروں کا جواب کیوں نہیں دے رہے‘‘۔ ایک سیکنڈ کے لئے تو سب سکتے میں آ گئے۔ ہم دو چار کے سوا سب ہی سیاسی کارکن تھے، وہ کسی دوسری جماعت کے سیاسی نعرے کیوں لگاتے چنانچہ انہوں نے پھر جیوے بھٹو کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ وہ خاموش ہوئے تو تحریک لبیک کے وہ تین چار لوگ پھر شروع ہو گئے اور آخر میں وہ عورتوں کے لئے پردے میں رہنے کا نعرہ بھی لگا گئے۔ شاید کسی نے انہیں اسلامی تاریخ میں عورتوں کے جنگوں میں حصہ لینے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔

بھئی ہم تو پہلے سے ہی مسلمان ہیں اور ختم نبوت میں یقین رکھتے ہیں تو پھر یہ کون ہوتے ہیں، اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہمارے ایمان کے بارے میں فیصلے صادر کرنے والے۔ بھئی سیاست کرنی ہے تو کرو، مذہب کے ٹھیکے دار تو نہ بنو، دوسروں کے ایمان پر تو سوال نہ اٹھاؤ۔ مذہب بندے اور خدا کا معاملہ ہے ۔ ہر شخص اپنے اعمال اور عقائد کے لئے خدا کو جوابدہ ہے۔ آپ اپنی فکر کریں، دوسروں پر فتوے نہ لگائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).