پرانے پاکستان کا عام آدمی اور نئے پاکستان کا تھپڑ


ایک عام سفید پوش، باشعور آدمی نے بیچ سڑک پر ذلّت برداشت کی۔
تھپڑ کھائے۔
سوچا ہوگا کہ گھر پہنچ کر بیوی بچوں سے تھپڑ آلود چہرہ چھپا کر، منہ لپیٹ کر سوتا بن جاؤں گا۔
بیوی کھانے کا پوچھے گی تو کہوں گا کہ باہر سے پیٹ بھر آیا ہوں۔
طبیعت پوچھے گی تو کہوں گا کہ سینے میں جلن سی ہورہی ہے۔ شاید مرچیں زیادہ تھیں!

مگر تمام رات تو انگاروں پر ہی گزرے گی کہ کیوں اتنا بے بس ہوں میں!
کیوں اس طاقتور کا منہ نہ نوچ سکا!
کیوں اس کا ہاتھ مروڑ نہ سکا!
کیوں! آخر کیوں میں اتنا بےبس اور بےوقعت ہوں میں کہ زمین بھی نہ پھٹی میرے لیے کہ اسی میں سما جاتا!
انھی انگاروں پر لوٹتے ہوئے بلآخر رات کے کسی پہر آنکھ تو لگ ہی جائے گی اور صبح بھی ہوہی جائے گی!

اگلی صبح شاید میں ذلّت کا وہ منظر بھول جاؤں!
شاید چہرے پر تھپڑوں کے نشان دھندلے پڑ چکے ہوں تب تک!
اور جب دفتر پہنچوں تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!
انجان بن جاؤں گا سب سے اور اپنے آپ سے بھی!
لیکن رات بھر کے انگاروں نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا تو!

مگر اس شخص کو پتہ نہ تھا کہ ایک انسان اس کے اردگرد ایسا بھی تھا جو ذلّت کے ان لمحوں کی وڈیو بھی بنا رہا تھا!
وڈیو وائرل ہوگئی
ذلّت کے وہ لمحات دنیا کے سامنے آگئے!
یہ بھی پتہ چل گیا کہ کتنے طاقتور شخص کے ہاتھوں اس نے ذلّت سہی ہے!

بچوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ہوگا تو اس نے گھبرا کر اپنے بچوں کا مورال بلند کرنے کے لیے کہا ہوگا کہ اپنے باپ کو کمزور مت سمجھو بیٹا۔ دیکھ لینا میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں!
مگر پھر بیوی نے سمجھایا ہوگا کہ دیوانے ہو کیا! طاقتوروں سے الجھتے ہو! اپنے بچوں کا سوچو! رٹائرمنٹ سر پر کھڑی ہے اور وقت کے حاکموں سے پنگا لوگے! کہاں کہاں کے دھکے کھاتے پھروگے! عدالتیں صرف مشہور لوگوں کے مقدموں کا شغل کرتی ہیں اب۔ تمہیں کون جانتا ہے بھلا! جو ہوا، بھول جاؤ۔

اس نے بھی سوچا ہوگا کہ صحیح تو کہہ رہی ہے بیوی!
مگر میڈیا اس کے سر پر پہنچ گیا، بکا ہوا، کوئلے کا کاروبار کرتا میڈیا!
دن بھر اپنے ہاتھ اور دوسروں کے منہ کالے کرتا ہوا میڈیا!
اور اس شخص کا جو بیان سامنے آیا ہے، دراصل وہی ہے پاکستان کے ہر عام، سفید پوش اور باشعور آدمی کا بیان!

پاکستان کے ہر شناختی کارڈ پر درج آدمی کا بیان!
ایک تھپڑ ہے جو اس ملک کے 71 سالہ نظام کے منہ پر دے مارا ہے اس نے!
پاکستان کی تاریخ کا دیباچہ ہے یہ بیان۔
مگر بات محض تھپڑوں کی نہیں ہے۔
بات نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کے رٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچے ہوئے پرانے پاکستانی کی ہے۔

بات اُس نئے پاکستانی کے ہاتھوں ذلّت کی ہے جو پچھلے چند برسوں میں بقول عمران خان، نابالغ سے بالغ ہوا ہے۔ بات اس گھمنڈ کی ہے جس کا اظہار تھپڑ مارنے والے کے لب و لہجے میں ہے کہ میں حق رکھتا ہوں، بیچ چوراہے پر سزائیں سنا کر نیا پاکستان بنانے کا۔
یہ ثبوت ہے اس لب و لہجے اور رویّے کا جو پچھلے چند برسوں میں ابھرا ہے اور سوشل میڈیا اور چوراہوں پر نظر آرہا ہے۔
پرانا پاکستان تو چلو دفن ہوا 25 جولائی کو اور نئے پاکستان کا جنم ہوا۔

مگر جنم لیتے ہی کیا پالنے میں پوت کے یھی پاؤں ہیں؟
کیا اب بھی چوراہے پر کسی انسان کو زلیل کرکے معافی تلافی سے مک مکا ہوجائے گا؟
یہ مک مکا ہی تو ہے جس نے پرانے پاکستان کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ نئے پاکستان کا پہلا اقدام اس واقعے پر اپنے ایم پی اے سے استعفیٰ لینا ہوگا!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah