اللہ کی متعین کردہ حدود اور ہماری ، من مانیاں


ماضی قریب کی بات ہے کہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ، جیسے قبیح الفاظ ہمارے معاشرے میں انتہائی ناپسندیدہ اور، گھٹیا، تصور کیے جاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ الفاظ غیر محسوس انداز میں ہمارے معاشرے میں اپنے لئے جگہ بنانا شروع ہو گئے۔ اور میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان الفاظ کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ اور آج کل ان الفاظ پر مشتمل لطیفے، چٹکلے اور قصے کہانیاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردشِ عام ہیں۔ اور معاشرے کو لبرل ازم کا رنگ ڈھنگ چڑھانے کی بھرپور کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود سے نکل کر اپنی من مرضیوں پر اتر آئے ہیں۔

کیا ہمارا دین ہمیں ان حرام رشتوں سے منع نہیں کرتا؟ کیا اب ہم اللہ تعالیٰ اور اپنے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی تعلیمات سے دامن چھڑا رہے ہیں۔ کیا یہ وطن عزیز اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا؟ کیا وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات اور اقدار کا خاتمہ کیا جارہا ہے؟ آخر کون اور کیوں ہمارے معاشرے میں غیر اسلامی روایات اور رسم و رواج کو پروان چڑھا رہا ہے۔ وطن عزیز میں بے پردگی اور بے راہ روی عام ہوئے جا رہی ہے۔ اخلاق باختہ واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی زیادہ تر تعلیمی درسگاہیں کسی، فیشن انڈسٹری، کی جھلک پیش کر رہی ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں بنات مسلم کا لباس دیکھ کر آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اور دل سے آواز نکتی ہے۔
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

مسلم بیٹیوں کے ایسے، اخلاق باختہ لباس آخر کس معاشرے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ادھر اُدھر سے اکثر سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ کہ یہ ہر انسان کا ذاتی فعل ہے۔ اور یہ کہ ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ لہذا دوسروں کی فکر چھوڑ دیں۔ نہیں یہ بات ہرگز ہرگز درست نہیں کہ دین ہر مسملمان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امر بل المعروف اور نہی عن المنکر۔ کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلاؤ اور برائی سے روکو۔ افسوس ہماری تعلیمی درس گاہوں میں صرف ڈگری مکمل کروائی جاتی ہے۔ دینی اور اخلاقی تربیت پر بالکل توجہ نہیں دی جا رہی۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اب گھروں میں بھی دینی تعلیم و تربیت کی جگہ برقی آلات نے لے لی ہے۔

اس طرف نہایت سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضروت ہے کہ سوچا جائے ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر چل رہا ہے۔ جہاں آئے روز کم سن معصوم بچیوں اور بچوں کی آبرو ریزی کے بعد ان کی سانسیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ جہاں پھولوں جیسے مصوم بچوں اور بچیوں کی لاشیں کبھی کچرے کے ڈھیر سے ملتی ہیں تو کبھی گندے نالوں سے۔ جہاں حرام رشتوں کی نشانیاں کتے بھنبھوڑ رہے ہوتے ہیں تو کبھی غلاظت میں تڑپتی ملتی ہیں۔ جہاں جوان بیٹیاں دن کے اجالوں رات کے اندھیروں میں بھٹک کر عمر بھر کے لئے تارکیوں کو اپنا مقدر بنا لیتی ہیں۔ جہاں امت محمدیؐ کے سپوت ملک و دین کی سربلندی کی بجائے لڑکیوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ جہاں اولاد کے ہوتے ہوئے بوڑھے والدین کسی آشیانہ کسی اولڈ ہوم میں اپنی بےقدری اور اولاد کی بدنصیبی پر نوحہ خواں ہیں۔

جہاں رشوت، نا انصافی، شراب نوشی، ناچ گانا، سود غرض ہر وہ برائی جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کردیا۔ عام ہوتی جارہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حلال حرام کی واضح حدود متعین کردی ہیں۔ تو ہم کون ہوتے ہیں اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی کرنے والے۔ جب ہم اپنے بچوں کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرواتے ہیں تو۔ اس ادارے کے تمام اصول اور ضواط من وعن قبولکیے جاتے ہیں۔ اور ان سے روگردانی کرنے پر اکثر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہیں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ تو سربراہِ ادارہ کے اصول و قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ الغرض مہذہب اور منظم معاشرے میں ہم دنیاوی آقاووں کے اصول وقوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ مگر افسوس، اپنے مالک، خالق اور داتا کی متعین کردہ حدود کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).