کراچی کے ایک محنت کش بچے کی یاد


گزشتہ سال کراچی کی سیر کرنے کا موقع ملا تین دوست ہمراہ تھے۔ یوں تو انسان کی زندگی کا ہر سفر اپنی یادیں لیے سینے کے اندر دل میں چھپا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ماضی میں کیے گئے سفر کا مزہ لینا ہو دل کو ٹٹولو اور لطف اندوز ہو جاؤ۔ مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جس کے لیے دل کو ٹٹولنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کی گرفت ایسی مضبوط ہوتی ہے کہ آپ اس میں جکڑ لیے جاتے ہیں۔

لاہور سے بذریعہ ٹرین حیدرآباد اور تاریخی شہر خاموشاں مکلی (قبرستان ) سے ہوتے ہوئے ٹھٹہ کی مشہور مسجد کے نظارے کرتے ہوئے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ دوستوں کی رائے کے بر عکس کراچی تک بذریعہ پبلک ٹرانسپورٹ سفر کیا گیا تا کہ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن، طرز زندگی کو صحیح طرح سے دیکھا جا سکے۔ میرے دوستوں میں طارق گل عرف ڈبلیو، امتیاز چودھری اور شیخ اعظم شامل تھے۔ ان میں کراچی کی سیر و تفریح کے شوق میں کی آمیزش موجود تھی جس کی بنیادی وجہ کراچی کے حالات جو وہ میڈیا کے ذریعے سنتے رہتے تھے۔

امتیاز چودھری تو ڈر کی وجہ سے راتوں کو بھی کم ہی سوتے ان پر میڈیا نے گہرے اثرات چھوڑے واپس لاہور پہنچ کر جان کی امان پائی۔ سی ویو سے واپسی پر سی ویو سے ملحقہ روڈ پر ایک نو عمر بچے کو رات کی اندھیرے میں پھول بیچتے ہوئے دیکھ کر میں سکتے میں آگیا کہ ہم اپنے شب و روز میں ہزاروں روپے فضول خرچ کرتے ہیں اس کے برعکس کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بے انتہا مشقت کے بعد جینے کی امید نظر آتی ہے۔

اس کے ساتھ گفتگو ہوئی اس کا باپ مزدوری کرتا ہے اور اس کی والدہ لوگوں کے کپڑے سی سی کر اپنا گزر بسر کر رہے ہیں مگر بھت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات۔ مفلسی ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اپنے نو عمر بیٹے کو بھی اپنی مشقت میں شامل کریں۔ وہ بچے کے والدین جانتے ہیں کہ اسے کھلونے چاہیں لیکن اگر ان کا ہاتھ بٹانے والا کوئی نہ ہوگا تو فاقے ہوں گے۔

اسکول سے چھٹی تو سب بچوں کو ہوتی ہے مگر اسے وہ اسباق بھی پڑھنے پڑتے ہیں جو زمانہ پڑھاتا ہے۔
مسائل ہیں کہ ایک کے بعد ایک۔ مگر کائینات کے مالک سے پر امید ہیں کہ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

سب والدین کی طرح اپنے بچے کا مستقبل روشن دیکھنے کے خواب دیکھنا چاہتے ہیں مگر پنجابی کی مثال ”غریباں رکھے روزے تے دن آئے لمے“ (غریبوں نے روزے رکھے تو لمبے دن آ گئے) امیر اپنی ہر خود ساختہ ضرورت بھی پوری کر لیتا ہے جبکہ حالات سے مجبور والدین اپنے بچوں کو رات دیر تک محنت مزدوری کے لیے مامتا سے دور رات کے اندھیروں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

بچے تو سب کو ایک سے پیارے ہوتے ہیں۔ مامتا تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے۔ آج کئی مہینوں بعد بھی میں اپنے آپ کو اسی ساحل والی سڑک پر جامد اسی طرح ننھے پھول سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).