آوازیں سن لیتے ہو تو باتیں کیوں نہیں سن سکتے؟


ستر سال سے سفر میں ہیں، سفرِ آزادی میں، پتہ نہیں کب یہ سفر مکمل ہو گا۔ مکمل ہو گا بھی یا نہیں۔ پتہ نہیں کب منزل پر پہنچیں گے۔

بھوکے پیاسے تھکے ہارے مسافر۔ ایک دوسرے کا بوجھ بنے ہوئے لوگ۔ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے، سہارے کی تلاش میں۔ ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے۔ سارے ایک جیسے بے کس، بے سہارا، بے زبان۔

بے چارے۔
پتہ نہیں کب لاہور آئے گا۔

سب مسافر کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے نکل جائیں تو آزادی کی منزل آ جائے گی۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے دور سے منزل دیکھ بھی لی ہے۔ منزل ہے بھی یا نہیں۔ پتہ نہیں سچ کہتے ہیں یا خواب کی باتیں کر رہے ہیں۔ سچ ہی کہتے ہوں گے۔ اتنے جو چلے ہیں تو منزل تو آ ہی جائے گی۔ کہیں نہ کہیں تو ہو گی۔ سارے پاگل تو نہیں ہیں۔ جب سب کہہ رہے ہیں کہ ہم آزادی کی منزل کی طرف ہی جا رہے ہیں تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے۔

ریل گاڑی ہے کہ مسافروں سے بھی تھکی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ناتواں مسافر ریل گاڑی کو کھینچ رہے ہیں۔ بےچارے پہلی دفعہ تو کوئی سواری میسّر آئی ہے اور وہ بھی کن حالات میں۔

کچھ اس نحیف و نزار ریل گاڑی میں سوار ہیں اور کچھ اُن سواریوں پر لدے ہوئے بے قیمت امان کی طرح، کچھ لٹکے ہوئے اور کچھ محض اٹکے ہوئے۔ جیسے مجبور سانسیں۔ بے حس و حرکت جسموں پر ٹھونسے ہوئے گرد آلود چہرے۔

آوازوں کا شور۔ کچھ سنائی ہی نہیں دیتا۔ کچھ سنائی دیتا بھی تو کوئی ان آوازوں پر کان ہی نہ دھرتا۔ کوئی سننے والا ہے ہی نہیں، سب بولنے والے ہیں۔ سب چیخنے چلانے والے ہیں اپنے آپ پر، کوئی چپ کرانے والا نہیں کوئی دلاسے دینے والا نہیں۔ سب ایک جیسے ہیں۔ لُٹے پُٹے، بے کس بے سہارا، بے زبان، بے چارے۔ سب گُم ہیں۔ گُم شدہ۔ کوئی ڈھونڈنے والا نہیں۔ کسی کا کوئی ہے ہی نہیں کون کس کو ڈھونڈے؟ اور ڈھونڈ کے کیا کرے؟

کسی کو ٹوہ نہیں کہ دیکھے کیا کچھ لُٹ گیا، کون کہاں گُم ہو گیا۔
کسی کو ہوش ہی نہیں کہ سوچے کس نے لوٹا، کہاں لوٹا۔

کون پوچھے کہ کہاں جارہے ہیں، اگر لُٹنا ہی ہے تو سفر کا فائدہ، اس بھوک، پیاس، مشقت، خجالت، تھکاوٹ کا کوئی فائدہ۔ جب لُٹنا ہی ہے تو اِدھر ہی لُٹ جائیں۔ مگر کون سوچے۔ سب ایک جیسے ہیں۔ بے زبان۔ بے حس و حرکت۔ بے وقعت، بے سر و سامان۔

سب بولتے ہیں، سنتا کوئی نہیں، آوازیں تو سن لیتے ہوں گے، اگر بات نہیں سن سکتے تو۔ سب انصاف طلب، سب مدد کے خواہاں، سب ضرورت مند، سارے ہی اپنے منصف، سب اپنے پہرےدار۔ کوئی کسی کو نہیں دیکھتا۔ کوئی کسی کی نہیں سنتا، سن بھی لیتا تو مانتا کیوں؟

جو گم گئے اُن کو ڈھونڈتا کوئی نہیں۔ اور ڈھونڈیں بھی کہاں، سب کے چہرے تو اَٹے ہوئے ہیں گرد و غبار سے۔ کوئی چہرہ نظر نہیں آ رہا۔ سب ایک جیسے، ایک جیسے چہرے اور ایک جیسی روحیں۔ ایک سے مقدر۔ ایک سے فیصلے۔ ایک جیسی سزائیں۔

تھکاوٹ سے چُور، سوار بھی تھکے ہارے، سواری بھی۔ منزل نہیں آئے گی؟ ہیں؟ کبھی نہیں؟ کیا واپس جا سکتے ہیں؟ واپس کہاں جائیں گے؟

اب تو خواب بھی نہیں دیکھتے، سوئیں گے نہیں تو خواب کیسے دیکھیں گے۔ سو جائیں گے تو سفر کیسے کٹے گا۔ کون سا سفر؟ وہیں تو کھڑے ہیں۔ وہاں بھی نہیں۔ یہ وہ جگہ تو نہیں ہے جہاں سے چلے تھے۔ مگر کہاں سے چلے تھے؟ جانا کہاں ہے؟ منزل کی طرف۔ تو منزل کہاں ہے؟ سب سوئے ہوئے ہیں۔ جاگیں گے تو یاد آ جائے گا کہاں سے چلے تھے، کس کے ساتھ چلے تھے، کہاں جانا تھا، کہاں پہنچے ہیں؟ مگر جاگیں گے بھی یا نہیں؟ کیا سوئے رہیں تو اچھا ہے؟ تہی دست لوگ، جاگیں بھی تو کس لئے؟

بے منزل، بلا ارادہ، بے دلی کا سفر۔ کس سے پوچھیں کہ کتنا سفر باقی ہے، پانی کب ملے گا، بھوک کب ختم ہو گی؟ کب کوئی آوازیں سننے والا باتیں بھی سنے گا؟ کیا کوئی سنے گا بھی یا نہیں؟

یہ سفر ہے کیا؟
یہ کون سی منزل ہے؟
لاہور کب پہنچیں گے؟
کب آئے گا 1947؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).