ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ’بھائیوں کو شیعہ ہونے کی سزا ملی‘


پاکستان

ڈیرہ اسماعیل خان میں کاظم حسین کے لیے ان کے تین بھائیوں کی یادیں دفن ہیں جنھیں گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران اس ضلع میں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ کاظم کا خاندان پہلی مرتبہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ سنہ 2005 میں بنا جب ان کے 32 سالہ بھائی ذاکر کو اس وقت مارا گیا جب وہ پرووا تحصیل میں اپنے گاؤں بڑکی سکندر سے کسی مریض کو دیکھنے جارہے تھے۔

ذاکر پیشے کے لحاظ سے ڈسپینسر تھے۔ ان پر حملہ کرنے والے نامعلوم تھے اور پولیس کے کہنے پر کاظم نے خاندان نے تین افراد کے خلاف ایف آئی ار درج کراوئی جن میں سے ایک شخص آج ایک شدت پسند تنظیم کا اہم رکن ہے۔ آٹھ برس بعد موت نے دوبارہ اس خاندان کے دروازے پر دستک دی اور نشانہ بنے کاظم کے دوسرے بھائی ملازم حسین جو اپنے بھانجے سمیت دسمبر 2013 میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئے۔

اور اب گذشتہ ماہ آٹھ جولائی کو کاظم کے چھوٹے بھائی باقر حسین کو بھی ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔ باقر بھی اسی شوگر مل میں ملازم تھے جس میں ملازم حسین کام کیا کرتے تھے اور وقوعے کے روز اسے میٹنگ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ کاظم حسین اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اب جان کے خوف سے اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے گاؤں منتقل ہو چکے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کاظم حسین کا کہنا تھا کہ ان کے تین بھائیوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ انھیں کیوں مارا گیا ہے۔

پاکستان
دائیں سے بائیں: باقر حسین، ملازم حسین، ذاکر حسین

انھوں نے کہا کہ ‘بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انھیں شیعہ ہونے کی سزا دی گئی ہے۔’ کاظم حسین نے بتایا کہ ان کی کسی سے دشمنی تو دور کی بات، ان کی تو کسی سے زبانی کلامی لڑائی بھی نہیں تھی۔ کاظم حسین نے بتایا کہ ان کے والد نے اس علاقے میں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس میں مقامی لوگ نماز ادا کیا کرتے تھے اور یہ مسجد اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب علاقے میں اس طرح کے تشدد کے واقعات کا سوچا بھی نہیں تھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ مسلک کے افراد کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور بڑا ہدف پولیس اہلکار بھی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ضلع میں اس سال جولائی تک 35 افراد ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے ان میں زیادہ تعداد اہل تشیع اور پولیس اہلکاروں کی ہی ہے۔ محمد بشیر نامی پولیس سپاہی کو چند روز پہلے پرووا تحصیل میں ہی قتل کیا گیا تھا ۔ محمد بشیر کے بھائی عنایت نے بتایا کہ ان کے بھائی کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ پولیس میں ملازم تھا۔

عنایت خود بھی پولیس میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وقوعہ کے روز وہ دونوں بھائی گھر میں بیٹھے تھے اور اچانک محمد بشیر نے کہا کہ وہ ڈیوٹی کے لیے جا رہا ہے اور واپسی پر بچوں کو لے کر شہر جائے گا۔ ‘یہ کہہ کر محمد بشیر گھر سے روانہ ہوا اور ساڑھے دس بجے اطلاع آئی کہ محمد بشیر کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔’

پاکستان
حکام کے مطابق ان پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے تعلق رہا ہے۔

ضلعی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث افراد اور تنظیموں کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ایسے بھی شواہد ملے ہیں کہ انھیں غیر ملکی مدد حاصل ہے اور بہت جلد ان پر قابو پا لیا جائے گا ۔ ضلعی پولیس افسر ظہور بابر آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ 2018 کے ابتدائی سات ماہ میں 35 افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ اس سے پہلے دو سال شہر میں امن رہا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل جغرافیائی لحاظ سے جنوبی وزیرستان، اور دوسری جانب بلوچستان کے علاقے اور نیم قبائلی علاقوں میں گھرا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ پنجاب کے ساتھ بھی اس کی سرحد ملتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ایسے گروپس سامنے آئے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں اور ان پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے تعلق رہا ہے۔

ظہور بابر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘اس علاقے میں شدت پسند تنظیمیں متحرک ہیں جن میں تحریک طالبان ہے اور کلاچی میں ٹی ٹی پی سجنا گروپ متحرک ہے اس طرح اے کیو آئی ایس القاعدہ برصغیر کام کر رہی ہیں۔’ انھوں نے کہا کہ ان گروپس کے خلاف پاکستانی فوج کے علاوہ سی ٹی ڈی اور پولیس کے اہلکار کام کر رہے ہیں لیکن اب تک ملزمان ہاتھ نہیں آ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp