نئی حکومت ،مسائل اور فیصلے


بہت دنوں سے سوشل میڈیا پہ کئی طرح کے سوالات و جوابات کا سامنا رہا ہے۔ نئی حکومت اور اس کے فیصلے کیا ہوں گے۔ مہنگائی، بیروزگاری، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، امپورٹ اور ایکسپورٹ میں ایک بڑی خلیج کا ہونا، پیداواری یونٹوں کی بے تحاشا کمی اور اس کے ساتھ درجنوں ایسے مسائل جن پہ ہزاروں باتیں اور دلیلوں کی بھر مار رہی اور دماغ اسی ضمن میں گم رہا۔ کہ یہ سب معاشی معاملات کا سامنا تو اس پاک سرزمین کو ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ ہر سال اور ہر بار حکومت سنبھالنے سے پہلے ایسی ہی دگر گوں صورت حال دیکھنے کو ملی ہے۔ کبھی بھی اس گرداب سے باہر نکلے ہی نہیں ہیں۔ اب کی بار جب تیسری بڑی پارٹی پاکستان کی پہلی بڑی پارٹی بن کے سامنے آئی ہے۔ تو کچھ نئے اور متناسب فیصلے لینے اور اس معاشی گرداب سے قوم کو نکالنے والے فیصلوں کی طرف سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ دیکھنا یہ ہے، کہ حکومت سنبھالنے کے بعد کیسے فیصلے لیے جائیں گے۔ جو آج کی صورت حال کو بہتری کی جانب لے جائیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے لیے گے قرضوں کی مد میں مسلسل اضافے کے بعد آج ستائیس ارب ڈالرز کا مرکوز ملک کس سمت کھڑا ہے۔ اور اس کی معاشی پالیسی میں ایسی کیا تبدیلی لائی جائے کہ نہ صرف قرضہ کی مالیت کم کی جائے سکے۔ بلکہ اس کی واپسی اور آئندہ آنے والے وقت میں اس سے جان چھڑائی جائے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج اس حکومت کے سامنے ہے۔ کیونکہ بات صرف قرضہ کی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ آنے والی ایسی شرائط اور سٹرکچرایڈجسٹمنٹ پروگرامز کی بھی ہے۔ جس پہ عمل کرنا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔ اور انہی شرائط میں اداروں کی نجکاری، ٹیکس شرح اور انرجی ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت سامنے آتا ہے۔ جس کا براہ راست اثر ہماری پیداواری صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ اور ملک غیر ملکی اشیاء کا مرہون منت ہوتا چلا جاتا ہے۔

جہاں ایک طرف نہ صرف سرمائے کا انخلاء غیرملکی کمپنیوں کے منافع جات کی صورت نکلتاہے۔ بلکہ دوسری طرف ملکی مصنوعات کی طلب کم ہونے کی وجہ سے قومی سرمایہ دار کاروبار میں خسارے کا سامنا کرنے کی وجہ سے اپنے کاروبار کو بند کرنے میں ہی عافیت سمجھتاہے۔ جس کا نتیجہ وہ کاروباری لوگ جو سرمایہ لگا کے قومی پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتے تھے۔ اب صرف تاجر بن کے رہ گئے ہیں۔ وہ بس امپورٹڈ مال چائنہ، ملائشیا اور تھائی لینڈ سے خریدتے ہیں اور یہاں لا کے بیچ دیتے ہیں۔ نہ انہیں انرجی سیکٹر میں بحران آنے کا شکوہ اور نہ ہی حکومتی پالیسیوں کا کوئی خوف ستائے رکھتا ہے۔ لیکن ملکی پیداوار اور زرمبادلہ کے لئے یہ ایک خطرناک بات ہے۔

اب بات اس حکومت کے لئے پیدا ہونے والے اور موجودہ چیلنجز کی ہے۔ کہ یہ حکومتی اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے۔ قرضوں پہ محیط ملک میں قرضوں سے جان چھڑانا ناممکن ہے۔ لیکن تبدیلی کا نعرہ تبھی کارآمد ثابت ہوگا۔ جب معاشی تبدیلی کی جانب سفر کے آغاز بارے کم ازکم سوچا تو جائے۔

پہلی اور اہم بات جس بارے کافی چرچا رہا ہے۔ وہ بیروزگاری کے خاتمہ کی ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اگرموجودہ ذرائع کو بھر پور بروئے کار لاتے ہوئے، چھوٹے پیداواری یونٹ لگا کے کھانے پینے اور روزمرہ کی وہ اشیاء جو بیرون ملک سے درآمد کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اشیاء بھی جو ہم ملٹی نیشنل کمپنیز کی استعمال میں لا رہے ہیں۔ ان کا نعم البدل تیار کیا جائے۔ اس کے لئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیے، بلکہ پیداواری اذہان کی ایسی متناسب پالیسیاں چاہئیں۔ جو ان سب کے لئے منصوبہ بندی کر سکیں۔ اس سے ایک طرف روزگار میں اضافہ ہوگا۔ اور دوسری طرف درآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ اور یہ کہ پیداواری عمل سے روزگاربڑھے گا۔ جس سے براہ راست لوگوں کی آمدنی میں اضافہ سے ملکی اشیاء کی طلب بڑھے گی۔

بڑھتی ہوئی طلب چھوٹے کارخانہ دار کی حوصلہ افزائی کا موجب ہوگی۔ ویسے تو ایسی پالیسیاں کسی ملک کے قیام کے ابتدائی ایام کی ہوتی ہیں۔ لیکن شاید ابھی پاکستان اپنی آزادی کے ابتدائی ایام میں ہی کہیں پھر رہا ہے۔ تعلیم، صحت، تعمیر وترقی سبھی اسی پیداواری عمل سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں دس کروڈ سے زیادہ نوجوان رہ رہے ہوں، وہاں پیداواری عمل کو بڑھائے بغیرقرضوں اور ملکی سرزمین کو استعمال کرنے پہ ملنے والے کرائے سے کوئی بڑی تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے، جس میں امریکی حکومت نے اپنی ملکی مصنوعات کو پروٹیکشن دینے کے لئے ترکی کی درآمدات پہ ٹیرف ریٹ بڑھا دیا ہے۔ نئی حکومت پاکستان کو ایسے کئی طرح کے قابل عمل اقدامات مناسب انداز میں وقتا فوقتا اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔ تبھی حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).