پاکستان میں جمہوریت کا گولڈن دور شروع ہو گیا


پاکستان میں جمہوریت کا گولڈن دور یوں شروع ہو گیا ہے کہ تیسری منتخب جمہوری حکومت وجود میں آرہی ہے۔ اس بار کی تبدیلی میں پاکستان کی سیاست میں اپنے آپ کو حرف آخر سمجھنے والی دونوں جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کو وہ مینڈیٹ عوام کی طرف سے نہیں ملا ہے جو ان کو پچھلے ادوارمیں ملتا رہا ہے۔ یوں پیپلزپارٹی کے کو چیرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کو اپوزیشن بنچوں پر گزارہ کرنا پڑیگا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم تسلیم بھی کرنا پڑے گا جس کے بارے میں اس لیڈرشپ کے خیالات کبھی مثبت نہیں ر ہے ہیں۔

ادھر لیگی لیڈر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے راہنما آصف زرداری کے لئے ایک امتحان یوں بھی ہوگا کہ دونوں نے ہمیشہ ایکدوسرے کو لتاڑا ہے اوران تلخیوں میں بات یہاں تک بھی پہنچی کہ شہباز شریف اپنے مائیک توڑ خطاب میں آصف زرداری کے گلے میں رسی ڈال کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف اسی قسم کالہجہ اور زبان پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص آصف زرداری کی طرف سے شہباز شریف کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے، لیکن اب صورتحال یوں ہوچکی ہے کہ دونوں جماعتوں کو تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپوزیشن کی حیثیت میں میدان میں اترنا ہے۔ امید ہے شہباز شریف مائیک توڑ خطاب میں زرداری کے لئے رسی، گلیوں اور گھیسٹ کر قومی دولت واپس لانے کا اعلان نہیں کریں گے، جس کے ارد گرد دونوں شریف کی سیاست مدت سے گھومتی رہی ہے۔

ادھر پیپلزپارٹی کی قیادت بھی اس نازک صورتحال میں شریفوں کی بدمعاشیوں اور لوٹ مار کا تذکرہ فلور آف دی ہاوس نہیں کرے گی۔ حالیہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں دلچسپ صورتحال اسوقت پیداہوئی جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوزرداری کے ساتھ مصافحہ کیا اور فوٹوگرافر کو موقع دیا گیا کہ وہ اس تاریخی موقع کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسی زرداری کو سندھ کی بڑی بیماری قراردینے کے علاوہ اور ڈاکو قراردیتے ر ہے ہیں۔

ادھر اس مصافحہ سیاست میں اس بات کو بھی محسوس کیا گیا کہ تحریک انصاف کے کپتان عمران خان نے کھڑ ے ہو کر مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کے ساتھ بھی ہاتھ تو ملایا لیکن دونوں لیڈرہاتھ ملاتے ہوئے ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملار ہے تھے مطلب جس طرح عمران خان، زرداری، بلاول بھٹو زرداری سے ملے اس طرح کا جذبہ شہباز شریف کے لئے نہیں تھا۔ یوں اس طرح کے اشارے چغلی کھا ر ہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ”سمجھداروں ”کے تعاون اور خواہش پر ایکدوسرے کی طرف بڑھ رہی ہیں لیکن یہاں پیپلزپارٹی کے راہنما خورشید شاہ کی طرف سے یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ لاڈلہ کو جتوانے کے لئے حلقے پنکچر ہی نہیں بلکہ ٹائر ہی پھاڑ دیے گئے ہیں مطلب پیپلزپارٹی ایک طرف مفاہمت کے لئے ہاتھ بڑھارہی ہے تو دوسری طرف عام انتخابات پر سنجیدہ سوال بھی اٹھارہی ہے جو نواز لیگی قیادت کا ایجنڈا ہے۔

ادھر اس پر بھی بات چلی پڑی ہے کہ نواز لیگی ارکان اسمبلی کا ایک دھڑ ا بھی ”تبدیلی ”کے ساتھ ملکر اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کام کررہا ہے۔ یوں لیگی قیادت کو اس صدمہ کا بھی مستقبل قریب میں سامنا کرنا پڑیگا۔ اس حد تک تو درست ہے کہ تحریک انصاف وفاقی دارلحکومت کے اقتدار کے قریب آچکی ہے لیکن اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیاجارہا ہے کہ ابھی تحریک انصاف کی قیادت پنجاب جیسے بڑے صوبہ کے وزیراعلی کے نام کا اعلان اکثریت ہونے کے باوجود نہیں کرسکی ہے؟ اندازوں پرمتوقع وزیراعلی پنجاب کے لئے میڈیا میں نام چل ر ہے ہیں لیکن حتمی فیصلہ نہ ہونا بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ آخر وہ کونسی رکاوٹ ہے جو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اعلان کرنے سے روک رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عمران خان اپنی اس پارٹی لیڈرشپ سے فاصلہ کرر ہے ہیں جو نیب یا پھر دیگر اداروں میں ملزم ہونے کے علاوہ شہرت میں وہ نیک نامی نہیں رکھتے ہیں جو کپتان اس اہم موڑ پرچاہ رہا ہے۔

اس بات تجس بڑھ رہا ہے کہ پنجاب کا وزیراعلی کون ہوگا؟ لیکن اب وہ وقت قریب آچکا ہے کہ عمران خان بھی اس اہم فیصلہ کا اعلان کریں۔ ادھر اس بات کا کریڈٹ امیرترین کو دینا ہوگا کہ موصوف نے اپنے جہاز کو ایسے گھمایا ہے ک پنجاب سے چن چن کر آزاد منتخب امیدواروں کو بنی گالہ پہنچایا ہے اور تحریک انصاف کی پنجاب میں صوبائی حکومت کے خواب کو یقین میں بدل دیا ہے۔ لیہ کے عوام نے اس بار عام انتخابات میں آزاد امیدواروں کو زیادہ موقع دیا ہے، یوں رفاقت گیلانی اور طاہر رندھاوا آزاد حیثیت میں منتخب ہو نے کے بعد ہی بذریعہ ترین جہاز عمران خان کے ہاتھ پر سیاسی بعیت کرلی۔

ان دو آزاد امیدوار وں کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد احمد علی اولکھ جو لیہ ہی کی تحصیل کروڑ سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں منتخب ہوئے تھے، ان کا انتظار تھا کہ وہ تبدیلی کی طرف جاتے ہیں یا پھر شریفوں کو پیارے ہوتے ہیں؟ ذرا مڑکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ احمد علی اولکھ کا شمار شریف برادران کے با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا اور نواز اور شہباز ان پر نوازشات کی بارش کرتے تھے۔ لیگی لیڈرشپ کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی تھی کہ احمد علی اولکھ ہار گیا ہے یا پھر جیت گیا ہے۔ وہ اس کو اقتدار میں شریک کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے تھے۔

دلچسپ صورتحال اس وقت ہوئی جب 2008 ء میں پنجاب میں لیگی حکومت بنتے ہی جس رکن صوبائی اسمبلی کو کابینہ میں لیا گیا اور اس گر د وزراتوں کا ڈھیر لگا دیا گیا، وہ احمد علی اولکھ ہی تھا، پھر موصوف کی کارکردگی بحیثٰت وزیر اس طرح تھی کہ 2013 ء کے عام انتخابات میں اپنی سیٹ ہی ہار گئے، لیگی لیڈر شپ نے دل پر نہیں لیا بلکہ صوبائی سیٹ ہارنے والے اولکھ کے لئے اپنی پارٹی کے دو ارکان قومی اسمبلی کی ناراضگی مول لے کر بل دیا تی الیکشن کے نتیجہ میں لیگی ارکان کی اکثریت کے بل بوتے پر اس کے بھائی عمر اولکھ کو ضلع کونسل لیہ کا چیرمین بنوا دیا۔ پارٹی میں احمد علی اولکھ کے معاملے پر تلخی اس حدتک بڑھی کہ شہباز شریف کے بحیثت وزیراعلی لیہ کے دور ہ کے دوران لیگی رکن قومی اسمبلی ثقلین بخاری نے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر نوازشریف کی مداخلت پر بخاری نے ٹکٹ لیا اورالیکشن میں حصہ لیا۔

اب حالیہ جنرل الیکشن میں احمد علی اولکھ نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا لیکن مسلم لیگ نواز کی ضلعی صدارت سے استعفی بھی نہیں دیا لیکن پارٹی قیادت پھر بھی خاموش رہی۔ اب شریفوں کے ساتھ احمد علی اولکھ نے یوں ہاتھ کیا ہے کہ اسلام آباد جاکر جہانگیر ترین سے ملاقات میں تحریک انصاف کی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ وہ حکومت سازی میں بحیثت رکن پنجاب اسمبلی ووٹ تحریک انصاف کو دیں گے مطلب اقتدار کا راستہ چن لیا ہے۔ دلچسپ صورتھال یوں ہے کہ معروف صحافی مقبول الہی کا کہنا تھا کہ احمد علی اولکھ نے مسلم لیگ نواز کی ضلعی صدارت سے استعفی نہیں دیا ہے۔ اب راقم الحروف کو تو خواجہ آصف کے تاریخی الفاظ یادآر ہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).