عمران شاہ کا تھپڑ اور مرتضیٰ عباسی کی بے لگام زبان


ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ آئے دن کے جھگڑے ہمارا معمول ہیں۔ معمولی باتوں پر تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ آپ کسی دن کسی مصروف شاہراہ پر ایک گھنٹے کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ آپ کو ایک گھنٹے میں متعدد لوگ گالیاں بکتے، معمولی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور غصے میں منہ سے جھاگ اڑاتے دکھائی دے جائیں گے۔

عوام میں یہ فرسٹریشن یہ غصہ برسوں سے لاوے کی طرح پک رہا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کے بہ نکلنے کی مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں۔ مگر یہی حرکت اگر ایک صاحب قوت و اختیار کر دے تو وہ ایک عام معاملہ نہیں رہتا بلکہ سطحی ذہنیت کی ایک مثال بن جاتا ہے۔ اسی لیے جب تحریک انصاف کے نو منتخب ممبر صوبائی اسمبلی نے کراچی کی سڑک پر ایک شہری پر ہاتھ اٹھایا تو وہ موضوع گفتگو بن گیا۔ حرکت اس نے بھی وہی کی جو ہماری قوم کی اکثریت سڑکوں پر کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس شخص کے ساتھ ممبر صوبائی اسمبلی کا لاحقہ اور تحریک انصاف کا نام جڑا ہوا ہے چنانچہ تمام توپوں کا رخ نئے پاکستان کی جانب ہو گیا۔

عمران علی شاہ کی اس حرکت کی کسی طور بھی تحسین نہیں کی جا سکتی کیونکہ کسی صاحب اختیار و اقتدار کی جانب سے کی گئی ایسی حرکت براہ راست ریاست کو عوام کے مقابل کھڑا کر دیتی ہے چناچہ اس ممبر صوبائی اسمبلی کی جانب سے شہری پر تشدد کی مذمت کی جانی چاہیے اور متعلقہ سیاسی جماعت یعنی تحریک انصاف کو ایسے معاملات کی طرف سختی سے توجہ دینی چاہیے تاکہ ان پر لگا ہوا یہ داغ کہ انہوں نے پاکستان میں ایک نئے اور ناقابل تحسین سیاسی کلچر کی بنیاد ڈالی ہے، دھل سکے۔ اور اگر ان کا واشنگ پاؤڈر یہ داغ دھو کر صاف نہ بھی کر سکے تب بھی داغ کو ہلکا ضرور ہونا چاہیے۔

اسی اثنا میں گذشتہ روز یعنی 15 اگست 2018 کو قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات ہوئے اور ان میں تحریک انصاف کو متوقع کامیابی حاصل ہو گئی۔ قومی اسمبلی کے سابقہ اسپیکر جناب سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کے اسد قیصر کی کامیابی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی مسلم لیگ نون کے مرتضیٰ عباسی (سابقہ ڈپٹی اسپیکر) کا مائک بھی کھلوا دیا اور یہ مائک کھلنا قیامت ہو گیا۔ مرتضیٰ عباسی نے چوتھے گیئر میں اسٹارٹ لیا اور نان اسٹاپ بولتے چلے گئے۔ ان کی تقریر کو مہمیز کیا مسلم لیگ نون کے دیگر ارکان کے نعروں نے اور مرتضیٰ عباسی جوش خطابت میں وہ بات کر گئے جو ایک منتخب رکن قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے فلور پر کسی صورت نہیں کہنی چاہیے تھی۔

مرتضیٰ عباسی نے مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد نواز شریف کے احتساب عدالت میں بکتر بند گاڑی میں لانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ نواز شریف کو دہشت گردوں اور اسمگلروں کی طرح بکتر بند گاڑی میں عدالت لایا جا رہا ہے۔ اتنا ظلم تو انڈینز مقبوضہ کشمیر میں نہیں کر رہے جتنا ظلم پاکستان کے تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم کے ساتھ اس ملک میں کیا جا رہا ہے۔

قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ایک منتخب ممبر اسمبلی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ نہایت نامناسب بلکہ باقاعدہ بے ہودہ کہلائے جا سکتے ہیں۔ مرتضیٰ عباسی کا حق ہے کہ اپنی سیاسی جماعت کے قائد کے لیے آواز بلند کریں۔ مگر اس میں اتنا آگے چلے جانا کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر سے ملا دینا بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جانا ان کی سطحی ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

نواز شریف کے ساتھ بہرحال وہ سلوک نہیں کیا جا رہا جو ایک عام مجرم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو جیل میں بھی وہ سہولتیں ملی ہوئی ہیں جو ایک عام قیدی کو میسر نہیں ہیں۔ ہر ہفتے وہ اپنی جماعت کے ارکان سے ملاقات کرتے ہیں اور یہ ملاقات جیلر کے کمرے سے ملحقہ کمرے میں پورے اطمینان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کے ساتھ امتیازی سلوک کو انڈینز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں روا رکھے جانے والے ظلم سے بھی زیادہ قرار دینا افسوس ناک ہے۔

غالباً عباسی صاحب کو مقبوضہ کشمیر کے حالات سے آگاہی ہی نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیسے، ان کی حکومت میں کشمیر کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان تھے جنہیں دنیا کی ہر چیز میں دلچسپی تھی، اگر نہیں تھی تو کشمیر میں نہیں تھی۔ اور اب انتخابات میں شکست کے بعد وہ نہ تو انتخابات کو مانتے ہیں، نہ ہی تہتر کے آئین کے تناظر میں پاکستان کو اسلامی ملک مانتے ہیں، نہ ہی منتخب حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی یوم آزادی مناتے ہیں۔ ایسے شخص کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رکھنے اور اس کے ہاتھ میں کشمیر سے متعلق معاملات سونپنے کا نتیجہ وہی نکل سکتا ہے جو 15 اگست کی شام کو قومی اسمبلی میں نکلا۔

مرتضیٰ عباسی صاحب کی زبان سے نکلے ہوئے انگاروں کے بعد مناسب ہے کہ انہیں کم از کم دس دن کے لیے مقبوضہ کشمیر بھیج دیا جائے تاکہ وہ وہاں رہ کر مقبوضہ کشمیر کے عوام پر انڈینز کی جانب سے روا رکھے جانے والے ظلم کا مشاہدہ کر سکیں اور پھر انہیں معلوم ہو کہ ظلم دراصل ہوتا کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad