محتاط رہیں، کہیں سلیپ اوور زندگی تباہ نہ کر دے


رابعہ میری سہیلی ہے، میری پرانی اور عزیز ترین دوست۔ اس وقت وہ میرے سامنے صوفے پر بالکل خاموش بیٹھی تھی، معلوم ہوتا تھا وہ کسی شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔ ورنہ رابعہ اور یوں خاموش بیٹھے ممکن ہی نہیں۔ باتونی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ہی کہے جانا اور ہر حال میں اپنی بات ہی منوانا اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ کئی لوگوں کو اس کی یہ عادت پسند نہ تھی مگر مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، میں نے کہا ناں کہ وہ میری عزیز ترین سہیلی ہے۔

کئی بار وہ بالکل غلط بحث کرتی، کوئی انتہائی بھونڈی دلیل دے رہی ہوتی یا کسی بات پر اڑ جاتی تب میں بات کو ختم کرنے کے لیے بس اتنا ہی کہتی اچھا بھئی تم ٹھیک کہتی ہو اور اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ آ جاتی۔ مگر آج وہ بالکل خاموش تھی اس کے ہاتھ بالکل ساکت اس کیگود میں دھرے تھے اور وہ نظریں جھکائے انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ بظاہر وہ بہت پرسکون لگ رہی تھی مگر میں محسوس کر سکتی تھی کہ اس کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔ بہت دیر بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی تم ٹھیک کہتی تھی۔ رابعہ اور کسی سے کہے کہ وہ ٹھیک کہتا ہے یعنی وہ خود کو غلط تسلیم کرلے؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

میں اس کے پاس آ بیٹھی، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے پوچھا کیا ہوا؟ تم نے صحیح کہا تھا رابعہ نے دہرایا ٹین ایج بچوں کو سلیپ اوور کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ خدا خیر کرے میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اللہ کا بہت شکر ہے کہ اس نے میری کومل کو کسی برے حادثے سے محفوظ رکھا۔ رابعہ نے آہستہ آہستہ بتایا۔ میری آنکھوں کے سامنے ابھی کچھ ہی دن پہلے کا منظر گھوم گیا۔

میں رابعہ کے گھر اس کے لاؤنج میں بیٹھی تھی اور حسب معمول رابعہ خوب چہک رہی تھی، اتنے میں اس کی 15 سالہ بیٹی کومل سامنے آئی ہاتھ میں ایک بڑا سا ہینڈبیگ تھا وہ کہیں جانے کے لیے تیار تھی۔ مجھے دیکھا تو مجھ سے ملنے میرے قریب آ گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے پیار دیا کومل ہے ہی بہت پیاری، زندگی سے بھرپور اور گھومنے پھرنے کی شوقین۔ وہ اپنی سہیلی کے ساتھ کہیں جا رہی تھی اور اس کے بعد اسی سہیلی کے گھر رات رکنے والی تھی۔

گھومنے پھرنے کا شوق ہونا تو ٹھیک ہے مگر یوں کسی کے گھر رات رہنا کچھ مناسب نہیں کومل میں نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ کومل کچھ کہتی رابعہ تیزی سے بولی ہاں بھئی اب کوئی انجوائے بھی نہ کرے آپ ہی کی طرح بورنگ ہوجائیں؟ تب ہی کومل نے لقمہ دیا اور کیا آنٹی یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں آج کے دور میں یہ سب چلتا ہے اور پھر کول بھی تو لگنا ہے وہ شرارت سے بولی۔ آجکل کے دور میں کول لگنے سے زیادہ ضروری ہے محفوظ رہنا۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ مگر ہمیشہ کی طرح رابعہ نے اس بات کو بھی چٹکیوں میں اڑا دیا۔ ارے تم تو ہو ہی بوڑھی رو ح، پرانے زمانے کی دادی اماں۔ رابعہ کی اس بات پر کومل کھل کے ہنسی اور یوں ہی ہنستے مسکراتے اپنی ماں کو ہاتھ ہلاتے دروازے سے باہر چلی گئی۔

بچوں کا خیال رکھنا چاہیے رابعہ میں نے سنجیدگی سے کہا یوں اکیلے کسی کے گھر رات گزارنے کے لیے بھیج دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اوہو تم پھر وہی لے کے بیٹھ گئی کوئی چھوٹی بچی نہیں ہے 15 سال کی ہے اپنا برا بھلا جانتی ہے اور پھر کسی انجان کے گھر نہیں جا رہی اس کی سہیلی ہے میں ان لوگوں کو جانتی ہوں، کیا یہ کافی نہیں؟ میں نے پوچھا صرف جاننے سے کیا ہوتا ہے؟ صرف جان پہچان سے کسی پر مکمل اعتماد تو نہیں کیا جاسکتا ناں، ارے یار آج کل یہ سب چلتا ہے اب ہم روایتی ماں باپ کی طرح پابندیاں لگا کر بچوں کا دل تو نہیں توڑ سکتے اور پھر یہی تو عمر ہے انجوائے کرنے کی۔ وہ مصر تھی۔

ہاں مگر انجوائےمنٹ تو ماں باپ کے ساتھ رہتے بھی کی جا سکتی ہے، یا کم از کم بچوں کو کہیں باہر آنے جانے پر پک اینڈ ڈراپ ہی دے دو تاکہ آپ کو معلوم تو ہو کہ وہ کہاں ہیں اور کس کے ساتھ ہیں، اور پھر کسی پبلک جگہ پر بچوں کا اکٹھے ہونا تو ٹھیک ہے مگر کسی کے گھر کافی وقت کے لیے اکیلے بھیج دینا تو بالکل صحیح نہیں اور یہ سلیپ اوور تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آتا۔ میں نے کہا۔ وہ ہنستے ہوئے بولی چلو چھوڑو سمجھنے کو تم کافی پیو۔ اور آج وہ پریشان میرے سامنے بیٹھی تھی۔

کومل سلیپ اوور پہ گئی تھی، اس کی سہیلی کے باپ نے کومل سے بدتمیزی کی کوشش کی اتنا کہتے رابعہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے کومل اس کی بیٹی کے جیسی ہے وہ شدید غصے میں تھی۔ میں نے اسے بمشکل چپ کروایا اور جب وہ قدرے سنبھل گئی تو کہا بچے چاہے نونہال ہوں یا نوجوان ان کا خیال رکھنا، ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ رابعہ نے اثبات میں سر ہلایا، آج شاید پہلی بار اس نے کسی کی بات سے اتفاق کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).