تضادات کی دلدادہ قوم


عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے

احمد ندیم قاسمی بڑے آدمی تھے۔ زندگی کی تلخیوں کو عجب حسن کے پیرائے میں ڈھال دیا کرتے تھے۔ شاعر حساس طبع ہوتے ہیں اور معاشرے کی فورتھ ڈائیمینشن کو چھٹی حس سے محسوس کرتے ہیں۔ اپنے قیام ہی سے مملکت تضادات کے بھنور میں ہے۔ پہلے تو قیام پر ہی تضاد، جداگانہ ریاست ہو کہ یگانہ۔ فیصلہ آگیا کہ اپنی اپنی راہ لو سو یار لوگ سوئے دار پہ چل کر بھی کوئے یار کو پہنچے۔
اکثر تو فتح کے نشے میں ہی بھول بیٹھے کہ اب کرنا کیا ہے۔ وقت امتحان ہی انعام و اکرام کے مزے لوٹنے والوں نے تضادات کا ایک نیا محاذ کھول دیا۔ آئین کیسا ہوگا، ایک تضاد۔ حکمران کون ہوں گے، ایک اور تضاد۔ نظام حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی۔ مارشل لاء میں ترقی کے راز پنہاں ہیں کہ جمہوریت میں۔ قومی زبان اردو ہوگی کہ بنگالی، جمہوری آئین، پھر اس کے بعد وہ لائل پور کا گھنٹہ گھر، پھر مارشل لاء، کیسے کیسے تضادات کو جنم دے کر ان کی افزائش کی گئی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ایک اور تضاد اور اس نے جنم دیا سقوط ڈھاکہ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سے سبق لیا جاتا۔ کچھ بہتری کا سوچتے۔ تضادات سے پیچھا چھڑاتے لیکن ہوا کیا۔ وہی مارشل لاء، جیسے ٹھان لی ہو جمہوریت کے پاسبانوں نے کہ اسی آنکھ مچولی کے کھیل کو جاری و ساری رکھنا ہے۔ لیکن اس بار جو کھیل رچا گیا اس نے مذید خونی تضادات سے روشناس کروایا۔ شیعہ سنی تضاد، مہاجر سندھی تضاد جس نے ارتقاء پاتے ہوئے پٹھانوں کو بھی کھیل کا حصہ بنالیا۔

سانحہ بہاول پور نے ایک اور تضادات سے بھرپور جمہوری دور کی داغ بیل ڈالی۔ چشم فلک نے دیکھا کہ کیسے جمہوری زائچوں سے یکے بعد دیگرے اسمبلیاں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ نظام کی بوسیدگی کو ایک بار پھر آزمودہ قوتوں کی دھاک نے لپیٹ لیا۔

اس بار تضادات کو ایک نیا رخ ملا یا یوں کہیے کہ تضاد کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا گیا۔ بلوچستان تضادات کا ایک قطب ٹھہرا اور اسلام آباد دوسرا۔ بس پھر کیا تھا۔ خودکش دھماکوں کا ایک دور جس نے تاریخ میں پہلی بار رنگ، نسل اور مذہب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خیبر سے کراچی تک کے تمام تضادات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ گلی کوچوں اور بازاروں میں پھٹنے والوں کو کیا خبر کہ کس پہ پھٹا جائے۔ تضادات کا ایک آتش فشاں تھا جو پھٹتا ہی چلا گیا۔

ایک دہائی پر محیط خانہ جنگی کے بعد اب ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ تضادات کو سمجھنے لگے ہیں۔ نظریاتی ہونے کی تعریف کا ادراک بھی کسی طور ہوا چاہتا ہے اگرچہ یہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت ہی سہی، پر ہوا تو۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اکہتر سال میں پہلی بار یہ جو تیسرا انتقال اقتدار جمہوری طریقوں سے ممکن ہوا ہے اس کی نیا پار کیسے لگتی ہے۔ دعا ہے کہ اس بار پھر کسی نظریاتی کی نظر بد تضادات کا کوئی نیا باب نہ کھول دے۔ عین ممکن ہے کہ ایسا ہی کرنے کی سعی کی جاوے گی۔ اس سے بچ رہے تو پھر وہ دن دور نہی جب تضادات اپنی موت آپ مرجائیں گے اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا اور ملک ملک تضادستان سے خوشحالستان میں بدل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).