بولان میڈیکل کالج: چند معروضی حقائق



بولان میڈیکل کالج کا قیام 1972ء میں ہوا۔ بی ایم سی کا شمار ملک کے بہترین کالجز میں ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے صوبے میں واحد کالج کی حیثیت سے یہی ادارہ طب کے میدان میں بلوچ طلباء کی نمائندگی کرتا آرہا ہے ۔ آج کل اس ادارے کا نام سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ ان دنوں میں جس قدر اس ادارے کے طلباء سڑکوں پر انصاف کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں اتنے میں ان کے ایک سال کا کورس پورا بھی ہو جاتا ہے۔ سفید کوٹ میں ملبوس طلبات ہاتھ میں احتجاجی نعروں سے سجے پلے کارڈ اُٹھائے کبھی کالج کے سامنے دھرنا دیے ہوتے ہے تو کبھی لانگ مارچ کی صورت میں 10۔12 کلو میٹر دور پریس کلب کے سامنے اپنے کیمپ لگائے ہوتے ہیں۔ کہنے کو زیادہ تر افراد اسے غیر مہذب حرکت سمجھتے ہے مگر حالات کا اندرونی جائزہ کرنا اور ان پر فیصلہ اخذ کرنا شاید مشکل ہو۔ اس تحریر میں چند قابل توجہ نکات کا ذکر کرنا چاہوں گی۔

بلوچستان جیسے امیر صوبے کی شرح خواندگی %43 سے بھی کم ہے۔ یہاں بیشتر طلباء پرائمری کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس امر کی ایک اہم وجہ یہاں گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی ہے جن کے تعداد 1500 سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔ ان حالات میں طلباء کا میڈیکل کالج تک پہنچنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ بولان میڈیکل کالج عرصے سے انہی معجزاتی طلباء کا نمائندہ بنا ہوا ہے۔ یہاں صرف وہی طلباء پہنچ پاتے ہے جو اپنے ضلع کے تمام باقی طلباء کو پیچھے چھوڑ جاتے ہے یعنی یہاں اوسط ذہانت رکھنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ 9000 طلباء کو چھانٹ کر صرف 200 طلباء کو ہی یہاں داخلے ملتے ہیں جیسے عظیم الشان پہاڑوں کو خرید کر اُن سے صرف بیش قیمت پتھر ہی نکالی جاتی ہے۔ اس میرٹ کو بھی کئی بار پامال کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی سیلف فنانس کو متعارف کرکے اس میرٹ پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو کبھی سفارشی بھرتیاں بھی عمل میں لائے گئے۔ 2014۔15 سیشن میں جب دو الگ الگ ایڈمیشن فارم بانٹے گئے سرخ اور نیلے جو امیر اور غریب کے تفریق کو واضح کرتا تھا تو انہی دہشت گرد اور غنڈے کہلانے والے طلباء نے اس عمل کے خلاف احتجاج کیا اور میرٹ کو بحال رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اب آتے ہیں موجودہ مسئلے کی جانب”سپلیمینٹری مافیا”جو آجکل اپنے عروج میں ہیں۔ ایک دوست نے سوال پوچھا کہ یوں تو بلوچستان یونیورسٹی سمیت اور بہت سے ادارے ہیں جہاں سپلیمینٹری کا رجحان زیادہ ہے وہاں تو کوئی احتجاج نہیں ہوتا یہاں صرف 18 طلباء کے فیل ہوجانے پر اتنا واویلہ کیوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بی ایم سی کے طلباء نے اس طرح کے نہ انصافیوں کے خلاف پہلے بھی آواز بلند کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ یوں تو ہر سال رزلٹ پر طلباء کے تحفظات ہوتے ہیں لیکن رواں سال سخت ردعمل کی وجہ اس سال کا خراب رزلٹ ہیں ۔ 2018 ء میں مختلف کلاسز کا مجموعی رزلٹ حیران کن ہیں۔اس میں MBBSتھرڈ ایئر %18اور فائنل ایئر کا رزلٹ %36سب سے ذیادہ توجہ طلب ہیں ۔

اس اعداد شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ جو جواہرات چُن کہ لائے تھے یا تو انہیں زنگ لگ گیا ہے یا آپ انہیں پرکھ نہیں پا رہے ہو کہ وہ طالب علم سینکڑوں کو مات دیکر آئے تھے آج آپکا نظام اُنہیں مات دے رہا ہے انکی صلاحیتوں کو زوال کر رہا ہے۔ طلبا ء اپنی محنت اور صلاحیتیوں کے بنیاد پر اپنے زہنوں میں فرسٹ ڈیژن کا خیال بنائے ہوتے ہیں مگر پیپر پر دئے گئے نمبرو کو دیکھ کر لفظ آمریت کا سہی ادراک ہو جاتا ہے مکمل جواب لکھنے کے باوجود نمبر زیرو ملے ہوئے ہوتے ہے کیونکہ جواب من پسند نہیں ہوتا یا جناب کو ہماری لکھائی پسند نہیں آتی چپ سادھ اپنی غلطی مان کر جب طلباء پیپر کا اندورنی حصہ کھول کر دیکھتا ہے وہاں بھی”زیرو”۔۔چلو آمریت کے چکی میں پھنسے طلباء کے منہ میں آخر زبان آتی ہے تو ہمت کر کہ یونیورسٹی کے اساتذہ سے سوال پوچھا جاتا ہے جوابً وہ کہتے ہے کہ” بیٹھا ہمارا کوئی قصور نہیں رزلٹ آپکے اپنے اساتذہ بناتے ہے آپُ ان سے جا کر بات کریں۔ بی ایم سی کے اساتذہ جو پورے سال نرم مزاجی کی دائرے میں بات کرتے رزلٹ کے بعد جیسے ان میں کسی شہنشاہ کی روح آجاتی ہے گویا شہنشاہ عالم سے انکے عمل کی تشریح مانگنا گستاخی میں شمار ہوتا ہے۔ اب کون یہ دلیرانہ کام کریں؟ تمام طلبا اسی بات پہ متفقہ طور پہ خوش ہوجاتے ہے کہ اکثریت فیل ہے، دوبارہ امتحان دیکر پاس ہو جائینگے، حتیٰ کہ اگر ایک نمبر سے بھی فیل کئے جاوں تو بھی چُپ رہوں ورنہ شہنشاہ کے قہر سے بھگوان ہی بچائے، پے درپے ایسے اینول لگائے جاینگے کہ کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری ملتے ملتے سفید بال بھی نہ رہینگے۔ ویسے اسی وجہ سے ڈاکٹرز کے ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھا دی گئی ہے کیونکہ MBBS پاس کرنے میں ہی آپ سینئر شہری بن جاتے ہے۔

آخر کسی سرفروش نے ہمت کرکہ شہنشاہ عالم سے سوال کیا کہ سر خُدا کے لیے ایک نمبر دے دیں(زیادہ تر طلباء 1۔5 نمبر سے ہی فیل ہو جاتے ہیں) تو جواب یہ ملتا ہے بیٹھا دوبارہ امتحان دینا کوئی مسئلہ نہیں آب دوبارہ امتحان دے دیں نمبر دینا ہمارے ہاتھ میں نہیں مگر آنے والا رزلٹ ہمارے ہاتھ میں ہیں، وہاں پاس کردینگے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کاسامنا ہم سب کر رہے ہیں۔ہمیں سُننے کو ملتا ہے کہ یہ سلسلہ پہلے سے ایسا ہی چلتا رہا ہے اور اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی تو انہیں یہی جواب دینا چاہونگی کہ اب صبر کا پیمانہ لبزیر ہو چُکا ہے تبھی یہ ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے غلط فعل کو ہمیشہ غلط ہی کہا جائے گا چاہے وہ کسی بھی دور میں کسی بھی شکل میں کسی سے بھی سرزد ہو جائے، اس کے خلاف آواز اُٹھانا ہمارا حق ہے۔

اب ذرا بات کرتے ہیں حالیہ بھوک ہڑتالی کیمپ کی ویسے تو اس سال بی ایم سی کے انٹری ٹیسٹ سمیت ہر جماعت کے رزلٹ پہ تنازعات ہیں۔حالیہ تنازع فائنل ائیر کے رزلٹ کا ہے۔ جہاں پہلے سے آدھے سے زائد طلباء کوsupply دی گئی ہے ۔ سپلیمینٹری امتحانات میں 18 طلباء و طالبات کو دوبارہ فیل کر دیا گیا ۔ سوال صرف ایک سال کا نہیں بلکہ یہ طلباء کے مستقبل کاہے۔یہاں میں اس سوال کا جواب دینا چاہوں گی کہ صرف 18 افراد ہیں کونسی بڑی بات ہے۔بات تعداد کی نہیں دنیا میں انصاف کا تقاضہ تعداد پہ مبنی نہیں ہے۔دنیا کے مہذب اقوام میں ایک فرد کے ساتھ نہ انصافی کو بھی نا انصافی کے زمرے میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔افسوس کہ ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہاں ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ جب تک کسی دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد سو سے تجاوز نہ کر جائے وہ کسی سانحہ میں شمار نہیں ہوتاہے۔

آج ڈاکٹر فرہاد اور ڈاکٹر یونس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے اس نظام کو بدلنے کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال جیسا فیصلہ اٹھایا ہے۔یہ وہ آخری طریقہ تھا جس سے کچھ امیدیں لگائی جا سکتی ہیں۔احتجاجی کیمپ اور ریلیوں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں حاصل ہو سکا ہیں۔جس کی مثال حالیہ تھرڈ ایئر کا مسئلہ ہیں جو کئی وعدوں کے باوجود اب تک حل نہ ہو سکا۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ وہ طلباء جو کبھی بلڈ ڈونیشن کیمپ تو کبھی بک سٹال لگاتے ہیں آج اپنے ہی ادارے کے باہر بے ہوشی کے عالم میں پڑے انصاف کے جنگ لڑ رہے ہیں۔کیمپ میں ڈاکٹر یونس کا بڑا بھائی بھی موجود ہیں۔جو بار بار پریشانی کے عالم میں اپنے بھائی کے جانب دیکھتا رہتا ہے۔وہ بھائی جس پر وہ فخر کرتے تھا; جس کو لے کہ اس کے خاندان سمیت پورے علاقے کی امیدیں وابستہ ہے کہ کل ڈاکٹر اپنی تعلیم مکمل کر کے آئے گا تو انہیں معمولی سے بخار کے لیے میلوں کا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔

اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ میں اپنے محترم اساتذہ کی کردار کشی کرو۔ میں بس انہیں بتانا چاہونگی کہ سر آپ اس معاشرے کے ضامن ہیں آپ اس پسماندہ قوم کی حالت بدل سکتے ہو آپ کے ہاتھوں میں نہ صرف ہزاروں طلباء کے مستقبل ہیں بلکہ اس معاشرے کا مقدر آپکے ہاتھوں میں ہیں آپ اس تعلیمی نظام کی طرف نظر ثانی کرے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہماری باتیں صرف احتجاجی کیمپوں میں ہوتی ہے دوسرے اداروں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں وہاں اساتذہ ایک شہنشاہ ہوکرنہیں بلکہ ایک رہنماء کا کردار ادا کرتے ہیں اور طلباء کو انکے ہر مسئلے میں رہنمائی کرتے ہیں۔

یہ ہمارا ادارہ ہے اس کے بنانے والے ہم سب ہیں ہم سب مل کر اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے ادارے کی ساخت بُری طرح سے متاثر ہو چکی ہے۔ مجھ سمیت ایسے بہت سے طالب علم تھے جو آپشنل فارم میں پہلے آپشن پر BMC کا نام لکھتے ہیں میرٹ پر جانے کے بجائے BMC کا انتخاب کرتے ہیں۔ آج اس بات کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں کہ نئے آنے والے طلباء اپنا پہلا آپشن BMC رکھے، یہ کالج صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پورے صوبے کے افراد کے خوابوں کا ضامن ہیں آج فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہیں کہ ہم اسے اپنے انا کا مسئلہ بنائے یا مل کہ اپنے ادارے کو بچا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).