محبت امن ہے اور امن کا پیغام پاکستان


یہ چودہ اگست میرے لیے حسبِ معمول، حسبِ روایت بہت خاص دن تھا۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا پھر پاکستان کا جھنڈا اپنی ٹیرس پر لگایا اور جھنڈے کے رنگوں والا لباس زیب تن کیا۔ موبائل اٹھا کر فیس بک پر نظر دوڑائی تو کچھ ساعتوں بعد اس بچے کی تصویر نظر آئی جس سے چند دن قبل کسی نوسر باز نے اٹھائیس ہزار کے جعلی نوٹ دے کر (شاید) بکرا ہتھیا لیا تھا اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں وہ پٹھان بچہ اپنی کل پونجی کے لٹ جانے پر روتا ہوا دکھایا جا رہا تھا۔ کل اسی بچے کے ساتھ کچھ نوجوانانِ وطن تھے جن میں سے ایک اس کے سامنے جھک کر جوتے رکھتا دکھائی دے رہا تھا۔ تصویر کے نیچے ایک کیپشن تھی جس کے مطابق جامعہ پشاور کے طلباء نے اس بچے کو ہتھیائے گئے اٹھائیس ہزار روپے کے بدلے پچاس ہزار روپے اور ساتھ ہی ساتھ عید کے لیے نئے کپڑے اور جوتے فراہم کیے ہیں۔ دل خوشی سےجھوم اٹھا۔ دھوکے سے قربانی کا جانور لینے والا ایک تھا اور ایک انجان ہم وطن کے نقصان کا ازالہ کرنے والے جانے کتنے ”خوبصورت دل پاکستانی“ تھے۔

تمام دن سوشل میڈیا اور رابطے کی ویب سائٹس کے توسط سے ان لوگوں کی تصاویر ملتی رہیں جنہوں نے موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے یومِ آزادی کے موقع پر وطن عزیز اور اس میں بسنے والے اپنے ہم وطنوں کو صاف ہوا اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے شجر کاری مہم کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ پھر ان کے اس عزم میں نہ چھٹی کے دن نیند پوری کرنے کی خواہش حائل ہوئی اور نہ ہی اس خاص دن کے خاص پہناؤں کی خرابی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ملک بھر میں ہر عمر اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے یوم آزادی پر اس ارض وطن کو ہریالی کا نذرانہ دیا۔ ہریالی کا یہ نذرانہ دینے والے ”پر عزم پاکستانی“ تھے۔

شام میں ایک فیملی ممبر کی خواہش پر یوم آزادی کی رونق دیکھنے گھر سے نکلے تو سڑکوں پر تاحد نگاہ ہرے اور سفید رنگ کا سیلاب نظر آیا۔ گاڑیوں میں، موٹر سائیکلوں پر ہر سائز کے جھنڈے لیے، پرچموں سے آرائش کیے، ہرے اور سفید رنگ کے لباس اور ہیٹ پہنے، ہاتھوں میں پرچم اور باجے لیے عوام کا سیل رواں تھا جو اپنی من پسند جگہوں کی طرف رواں دواں تھا۔ خوشی سے تمتماتے، بے فکری کی جھلک لیے چہرے۔ بچے، بڑے، یکساں پرجوش۔ کسی بھی معاشی فکر، کسی بھی دہشتگردی کے خوف سے بے نیاز۔ وہ زندگی کے ہر پل کو جی لینے کی خواہش سے بھرپور ”زندہ دل پاکستانی“ تھے۔

واپسی پر روڈ جیم پیک تھی۔ رش ایسا کہ تل دھرنے کو حقیقتاً جگہ نہ تھی۔ چھوٹی بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کا اژدھام اور رینگ رینگ کر آگے بڑھتی ٹریفک۔ مگر مجال ہے جو پاکستانیوں کے چہروں پر کوئی ناگواری نظر آئے۔ نعرے لگاتے، ملی نغمے گاتے، پرچم لہراتے اور صبر و برداشت کا مظہر وہ ”یک دل، یک جان پاکستانی“ تھے۔

دن کے اختتام پر فیصل مسجد کی وہ تصاویر نظر سے گزرنے لگیں جس میں مسجد کے سر سبز احاطوں میں ڈسپوزیبل پلیٹیں اور کوڑا کرکٹ پھیلا دکھائی دیتا تھا۔ بہت سے دیگر لوگوں کے برعکس اس بار خلافِ طبیعت مجھے یہ کوڑا کرکٹ ذیادہ گراں نہ گزرا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ سی ڈی اے نے ایک دو دنوں کے اندر اندر تمام کوڑا کرکٹ سمیٹ لیا لینا ہے۔ اپنے اداروں پر اتنا اعتماد تو بنتا ہے ناں؟! لیکن اس وقت خوشی دو چند ہو گئی جب یہ معلوم ہوا کہ میرے دیس کے چند سپوتوں نے سی ڈی اے سے بازی لیتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت اسے اگلے ہی دن اصلی حالت میں واپس لوٹا دیا۔ یہ میرے ”بے غرض، محب وطن پاکستانی“ تھے۔

ملک سے محبتوں کے ان خوبصورت مظاہر پر میرا اپنے ہم وطنوں پہ یقین اور پختہ ہو گا اور مجھے یقین واثق ہے کہ میرے یہی ہم وطن اس ملک خداداد کو بہت آگے لے کر جائیں گے، خوب اس کا نام روشن کریں گے کیونکہ ” ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).