سندھ میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے راز


نوابشاہ شہر میں یہ انتیس دسمبر دوہزار سات کا دن تھا، اسکول، کالج بند تھے، شہری آبادیوں میں خوف کا عالم تھا، محلے کی کئی دکانوں پر راشن ختم ہو چکا تھا، جن کے پاس موجود تھا ان میں چند قیمت بڑھا کر اور چند اصلی داموں میں دے رہے تھے۔ کیوں کہ ستائیس دسمبر کی رات مارکیٹیں لوٹ کر جلادی گئی تھیں۔ گودام خالی کردیے گئے تھے، بلوائیوں نے گلی محلوں میں گھسنے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ رات بھر نوجوان لڑکے اور مرد اسلحہ، کلہاڑیاں، ڈنڈے لیے سرد راتوں میں پہرہ دے رہے تھے،

کئی دنوں تک ہر نکڑ پر مچ کچہری رات بھر جاری رہتی تھی۔ صبح اٹھے، باہر نکلے، خبر گرم تھی کہ کل رات بے نظیر بھٹو کی تصویر چاند میں دیکھی گئی ہے، دعویٰ خدا جانے کس نے کیا لیکن لوگ گواہیاں دے رہے تھے کہ ہاں ہمیں بھی ایسا لگ رہا تھا، جن کو یقین تھا کہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں وہ خاموش تھے اور دل میں ہی برا بھلا کہنے پر اکتفا کررہے تھے۔ یہ پروپیگنڈا یا مارکیٹنگ ہے، جس کا انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والے اجزائے ترکیبی میں دوسرا نمبر ہے۔

سندھ بھر میں بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزاروں کے مجاوروں نے ترقی پسند لیڈران کو ولی کی طرح پورٹرے کر رکھا ہے ۔ ان کے خلاف بات کرنا ناقابل معافی کبیرہ گناہ سمجھا جاتا ہے، بلاول بھٹو کا اسٹیٹس یہاں پیروں یا دیوتاوں کے وارث جیسا ہے۔ اندرون سندھ آپ پیپلزپارٹی پر تو بہرحال بات کر سکتے ہیں لیکن بھٹو یا بے نظیر بھٹو کی کسی پالیسی پر تنقید نہیں کی جا سکتی، آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ اس پروپیگنڈے کیلئے بڑی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک شہر کا نام بے نظیر آباد رکھ دیا، اداروں کے نام تبدیل کرکے بھٹو اور آصف زرداری کے خاندان کے نام پر رکھے گئے، اگر کوئی منصوبہ بنایا بھی جائے تو اس کا نام بھی بھٹو یا آصف زرداری کے خاندان کے نام پر ہی ہوتا ہے۔ یہ سب مارکیٹنگ کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ جس کے تحت کوئی چیز بار بار، ہر بار ہرجگہ آپ کے سامنے لائی جاتی ہے۔

الیکشن میں کام کرنے والے اجزا میں سب سے بڑی چیز رجحان ہے، سب سے زیادہ ووٹ رجحان کو پڑتے ہیں، ہوا چلتی ہے اور ووٹ کی پرچیاں کسی پارٹی کے بیلٹ بکس میں اڑتی چلی جاتی ہیں ۔ رجحان کے نمبر سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی سو فیصد یا پچاس فیصد بھی نہیں۔ زبان ، مینجمنٹ ، دھاندلی بڑے خرچے ، ترقیاتی منصوبے ، حکومتی کارکردگی ،نوکریاں،بریانی، ووٹوں کی خریداری، جاگیرداری، سرکاری اداروں میں اثر رسوخ ، سہولتیں ،وعدے اور دعوے بھی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ رواں الیکشن میں مجموعی طور پر تحریک انصاف کا رجحان تھا لیکن سندھ میں اس نے صرف کراچی کو متاثر کیا۔
ایسا اس لیے ہوا کہ اوپر لکھے گئے فارمولے میں سے کارکردگی، ترقی اور سہولتوں کے علاوہ تمام اجزائے ترکیبی پیپلزپارٹی کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ اور سب اس کے نمبر پورے ہیں۔ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا رجحان ہر الیکشن میں پیدا کرنے کے لیے بڑا خرچہ اور محنت کی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی مینجمنٹ سندھ میں بہت مضبوط ہے، ہر علاقے، ہر گاؤں، ہر محلے کے معززین تک پیپلزپارٹی کی رسائی ہے ۔ پولنگ اسٹیشنز پر ایجنٹ کبھی کم نہیں پڑتے، گلی گلی انتخابی دفاتر موجود ہوتے ہیں ، روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔

چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی اندرون سندھ بیشتر علاقوں میں پورا الیکشن سندھی قومیت پرستی اور اردو بولنے والوں کی مخالفت کے کارڈ پر لڑتی ہے۔ پیپلزپارٹی کالاباغ ڈیم سے سندھ کے حقوق، تھر کے کوئلے ، کراچی سے حاصل ریونیو سمیت تمام کارڈز کھیلتی ہے۔ اس نتیجے سے بھی لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ اگر کسی اور کو ووٹ دیا تو غیر سندھی (اردوبولنے والے) سندھ پر حکمران بن بیٹھیں گے۔ وڈیرے کسانوں سے بھی کہتے ہیں کہ پنجابی تمہارے پانی میں سے بجلی نکال لیتے ہیں، جو پانی باقی آتا ہے اس سے تمہاری زمینیں زیادہ فصلیں نہیں دیتیں۔ یعنی یہ لوگ جھوٹ سچ ، حرام، حلال، جائز و ناجائز، اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تمیز سے بہت دور ہیں۔

دس سال سے حکومت میں رہنے والی جماعت سے زیادہ سندھ کے سرکاری اداروں بالخصوص پولیس میں کسی کا اثر رسوخ ہو نہیں سکتا، آپ اگر ایک مڈل کلاس، پڑھے لکھے عام آدمی ہیں تو کسی گاؤں گوٹھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن لڑ کر دیکھ لیں، آپ پر اتنے مقدمے بنیں گے کہ سات نسلیں سیاست سے توبہ کرلیں گی۔ نگراں حکومت کے دور میں سڑکیں بھی بنوادی جاتی ہیں، نالوں کے لیے کھدائی بھی کرا دی جاتی ہے اور باقی چھوٹےموٹے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ الیکشن میں سرکاری ملازم پیپلزپارٹی کے ، ٹیچر ان کے ، ریٹرننگ افسران پر پی پی کا اثر رسوخ، ایسے میں لاڑکانہ کے کسی دور دراز گاؤں میں اگر مُردوں کے ووٹ ڈال دیے گئے یا ساٹھ گھروں والے گاؤں کے پولنگ اسٹیشن سے بار ہ سو ووٹ نکل آئے تو کون دیکھتا ہے؟

ن لیگ بجٹ کے نوے روپے منصوبوں، سڑکوں ، پلوں پر لگاکر ووٹ لینے پر یقین رکھتی ہے، اس کے برعکس پیپلزپارٹی چند فیصد بجٹ گاؤں محلے کے معززین میں بانٹ کر، اپنے رہنماؤں میں تقسیم کرکے، بریانی ، لنگر پر لگا کر ووٹ لینے پر یقین رکھتی ہے اور پیپلزپارٹی کا فارمولہ زیادہ کامیاب ہے۔ صرف یہی نہیں بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام بھی چلتے رہتے ہیں جو براہ راست عوام کے پیسوں سے ووٹ خریدنے کا طریقہ کار ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر اداروں میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کرکے بھی ووٹ خریدے جاتے ہیں، ایک نوکری کے بدلے پورے خاندان کے پوری زندگی کے لیے ووٹ ملتے ہیں، اندرون سندھ بعض جگہ پورے کا پورا گاؤں بھی سرکاری ملازم ہوتا ہے۔

اگر سراج درانی نے جلسے میں کہا کہ تمہیں رزق پیپلزپارٹی دیتی ہے اور ووٹ کسی اور کو دو گے تو یہ رعونت کسی انتخابی امیدوار کی نہیں ایک طاقتور جاگیر دار کی ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرامات کو بنیاد بنا کر (نعوذ بااللہ) خلق کو رزق دینے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ سراج درانی کے علاقوں میں آپ کو مفت لنگر بھی ملے گا، کھانا آپ جتنا بھی کھانا ہو کھالیں لیکن اگر آپ ان سے انڈسٹری لگانے کی بات کریں گے ، لوگوں کو خود مختار کرنے کی بات کریں گے تویہ لوگ آپ کے دشمن ہوجائیں گے۔ اس کے بدلے الیکشن سے پہلے جاگیرداروں کی اوطاقوں میں شناختی کارڈز کی بوریاں پڑی ہوتی ہیں۔

موجودہ پیپلزپارٹی کی کتاب میں سیاست انڈسٹری ہے اور ووٹ اصل میں نوٹ ہیں، یہ کاروباری بل گیٹس، اسٹیوجوبز، یا جیف بیزوز کی طرح سیدھی سادھے بزنس مین نہیں ہیں، یہ گاڈ فادر جیسے بزنس مین ہیں، جو اپنا بزنس چلانے کے لیے بدمعاشی، دھونس دھمکی، جھوٹ فریب، سیاسی اثر رسوخ سمیت ہر قانونی اور غیر راستہ استعمال کرتے ہیں۔
سندھ کے عوام کی حالت اس مشرقی بیوی جیسی ہے جو شوہر سے مار کھاکر، اس کے ظلم سہہ کر بھی اس کے خلاف ایک لفظ نہیں سننا چاہتی۔ یہاں تبدیلی کیلئے کوئی ذوالفقار علی بھٹو ہی آئے تو آئے عمران خان کے بس کی بات تو نہیں لگتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).