تزک ہٹلری اور تضاد نویس


یادش بخیر کسی زمانے میں یہاں قادریوں اور چشتیوں کا دور دورہ تھا، روحانیت کے چشمے بہتے تھے اور علم و فضل کی روشنی چاردانگ پھیلتی تھی، تصوف اور مجاہدوں سے دینی اور دنیاوی دونوں راستے کھلتے تھے، اسی مبارک زمانے کا ذکر ہے مولانا ابراہیم علی چشتی نے جرمنی کے رہنما ایڈولف ہٹلر کی خود نوشت سوانح عمری’’ میری جدوجہد‘‘ کا ترجمہ’’تزک ہٹلری‘‘ کے نام سے کیا جسے بہت شہرت ملی۔

ابھی ایک بار پھر سے ریاست سے اندھیرے چھٹ رہے ہیں نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھلنے والے ہیں، نحوست، آسیب اور مشکلات کا دور ختم ہونے والا ہے۔ تزک ہٹلری کا مقدمہ قدوس صہبائی نے لکھا تھا اور وہ ہٹلر کی کامیابی میں حب الوطنی اور جرمن فوج سے اس کے تعلقات کار اور فکر کی ہم آہنگی کو قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں’’ہٹلر کی ذاتی زندگی اور صلاحیت کے علاوہ اس کی کامیابی کا اہم راز یہ بھی تھا کہ ہٹلر کا اضطراب اور جوش انتقام لاکھوں جرمنوں کی دلی کیفیتوں کا ترجمان تھا، جرمن فوجی ہٹلر پر جان چھڑکتے تھے، صنعت کاروں کا کاروبار اشتراکیوں کی وجہ سے تباہ ہورہا تھا وہ اپنی دولت ہٹلر کے قدموں پر نچھاور کرتے رہے۔ غرض پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے مایوسی اور محرومی کے دور میں ہٹلر کی تحریک نے طاقت پکڑی۔ ہٹلر کے نعرے سن کر ہر جرمن کے سینے میں چنگاری سلگ اٹھتی تھی یہی چنگاری بالآخر شعلہ بن کر بھڑکی اور پھر دوسری جنگ عظیم کا آتش فشاں بن گئی‘‘۔

بظاہر جرمنی کے حالات اور ہٹلر کے عروج کا آج کی دنیا اور اس ریاست سے کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ تضاد نویس کو یہاں بھی مڈل کلاس کی محرومی اور مایوسی نظر آتی ہے اور عسکری خان کا رجحان بھی نئے پاکستان کی طرف ہی رہا ہے۔ یہاں کے امراء اور اشرافیہ بھی اسی تصور پر جان چھڑک رہے ہیں تو ایسے میں تزک ہٹلری کے یہ اوراق پڑھنا فائدہ دے سکتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ہٹلر کے جرمنی میں لوگ اس پر جان چھڑکتے تھے ، 90فیصد سے بھی زیادہ جرمن انتخابات یا ریفرنڈم میں ہٹلر کے حق میں فیصلہ دیتے تھے۔ مڈل کلاس تو ہٹلر پر صدقے واری تھی۔ یہودیوں کو گیس چیمبر میں بند کر کے مارنا یا کسی بھی ملک پر حملہ اور بےتحاشا بمباری بھی اس مڈل کلاس کے شوق انتقام کو ٹھنڈا کرنے سے قاصر تھی۔ ہٹلر کے مخالفوں کے ساتھ جو بھی برا سلوک ہو، مڈل کلاس اس نازیت کی ہی حمایت کرتی تھی، اس وقت جرمن فوج اور مڈل کلاس کی سوچ ایک تھی، جرمنی کے صدر جنرل ہنڈن برگ اور ان کی افواج کی بہت عزت تھی مگر اس کے باوجود ایڈولف ہٹلر کے عروج اور اس کو اقتدار میں لانے میں فوج کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ فوج اور ہٹلر کا دل ایک ہی طرح دھڑکتا تھا۔ مخالف آوازیں دبا دی گئیں تھیں، میڈیا مکمل طور پر کنٹرولڈ تھا، صرف پراپیگنڈہ منسٹر جوزف گو ئبلزکی دی ہوئی لائن پر ہی پوری قوم کو چلنا پڑتا تھا۔ ہٹلر کو مکمل اقتدار دلانے میں جرمن سیاستدان وان پاپن کا بہت ہاتھ تھا۔ اس نے فوج اور صدر جنرل ہنڈن برگ کو یہ دلیل دے کر ہٹلر کو اقتدار دلوایا کہ ہٹلر اقتدار میں آئے گا تو ذمہ دار بن جائے گا۔ اس کا لاابالی پن، خودسری اور غیر ذمہ داری جاتی رہے گی، جرمن صدر اور فوج دونوں کو یہ دلیل پسند آئی اور ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنادیا گیا۔ کوشش یہ کی گئی کہ کابینہ اور اہم عہدوں پر ہٹلر کے لوگ نہ لگائے جائیں اور اس کے بجائے دوسرے لوگوں کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جائے، مگر پاپن کا یہ فارمولا مکمل طور پر ناکام ہوا، ہٹلر عوام میں مقبول تھا اس نے فوج اور حکومت کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ وان پاپن کو بےاختیاری اور بےبسی کی وجہ سے حکومت چھوڑنی پڑی، صدر جنرل ہنڈن برگ کی وفات ہوئی تو چانسلر ایڈولف ہٹلر صدر بھی بن گیا اب وہ چانسلر،فیوریر اور صدر سب کچھ تھا، فوج حکومت اور عوام سب اس کے ساتھ تھے بس ا سی قومی خواب نے وہ المیہ جنم دیا جسے اب دوسری جنگ عظیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔وان پاپن حکومت سے نکلے تو ہٹلر نے ان کے احسان کے بدلے میں انہیں پہلے آسٹریا اور بعد میں ترکی میں جرمنی کا سفیر بنادیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی تو وان پاپن بھی گرفتار ہوا نورمبرگ کے وار کرائمز ٹریبونل میں اس کا مقدمہ چلا وان پاپن نے کہا کہ وہ تو دراصل ہٹلر اور اس کے نازی فلسفے کا سخت مخالف تھا اسی لئے حکومت میں کام کرنے کے بجائے سفارت قبول کرلی۔ نورمبرگ ٹرائل نے تو اسے بری کردیا لیکن تاریخ اور جرمن عوام نے وان پاپن کے ہٹلر کو برسراقتدار لانے کے جرم کو کبھی معاف نہیں کیا۔ پاپن سیاست میں دوبارہ سرگرم ہوئے تب بھی قبولیت نہ ملی۔ وان پاپن نے آرٹیکلز اور مضامین کا سلسلہ شروع کیا جس میں اپنے دفاع اور نظریات کے حق میں دلائل دئیے مگر ہٹلر کو اقتدار دلانے کا جرم ایسا داغ بنا کہ پاپن کو اس داغ کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔

ظاہر ہے جرمنی کی ان مثالوں یاتاریخ کے ان کرداروں سے کوئی بھی مماثلت اتفاقی ہوسکتی ہے مگر تضاد نویس کو کچھ ضرور ایسا نظر آتا ہے جس کا اطلاق آج کے حالات اور آج کی ریاست پر ہوسکتا ہے۔ غور سے پڑھیں گے تو بہت سی مطابقتیں بھی مل جائیں گی۔

ابراہیم علی چشتی کی تزک ہٹلری میں لکھا ہے کہ جرمن حکمت عملی یہ تھی کہ ظلم کا مقابلہ پرامن رہ کر نہیں کیا جاسکتا اور صرف نعرہ بازی حب الوطنی نہیں۔ گویا ظلم کا مقابلہ جارحیت سے کرنا پڑتا ہے اور صرف نعرے بازی نہیں حب الوطنی کے لئے ملک فتح کرنے پڑتے ہیں، یہ انعام میں نہیں ملتے۔

تزک ہٹلری ہو یا ذاتی انا اور انتقام میں ڈوبے کسی اور حکمران کی کہانی، ہر ایک کا انجام ملک کی شکست اور اس حکمران کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ تضاد نویس کا کہنا ہے کہ کامیاب وہ ہوتے ہیں جو عصری شعور کو مدنظر رکھتے ہوئے حسد، انتقام اور احتساب کے سال خوردہ دائروں کو توڑتے ہیں، انقلاب فرانس کے گلوٹین، انقلاب روس میں سرمایہ داروں کا خون اور انقلاب ایران میں شاہ پرستوں کا قتل خوشگوار تبدیلیاں نہ لاسکے بلکہ ان ملکوں کو ایک بڑے دائرے میں محدود کردیا، کاش! یہاں ایسا انقلاب آئے جس میں فرد کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، انسانی حقوق کا احترام، مخالفوں کے لئے انصاف اور مظلوموں کے لئے بہتری ہو۔ وگر نہ پابندیاں، بےمحابا طاقت اور فوج کے پسندیدہ حکمران تو تاریخ میں تباہی کا باعث بنتے رہے ہیں یہ ہٹلر ہی تھا جس کے خلاف بعد میں جرمن فوج ہی نے بغاوتیں کیں، Night of Generalsنامی فلم اس کی گواہی دیتی ہے حتیٰ کہ رومیل جیسے عظیم جرنیل کو گمنامی کی موت ملی۔ کاش! تاریخ کا یہ حصہ یہاں سایہ فگن نہ ہو بلکہ ہمارا ملک خوشحالی کے راستہ پر چلے…….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).