قومی ترانہ، دھن پر لکھے بول اور ساحر لدھیانوی کی داستان


گزشتہ ہفتے پاکستان کے قومی ترانے سے متعلق، کابینہ ڈویژن کے مرتب کردہ کتابچے کی بنیاد پر کالم لکھا۔ نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹرکی محترمہ رخسانہ ظفر کے ترتیب دیئے ہوئے اِس کتابچے کا پیش لفظ راقم نے سیکرٹری کی حیثیت میں لکھا تھا۔ اِس کالم پر قارئین کے ردِعمل سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ پولیس سروس کے رُکن جناب الطاف قمر اسی موضوع پر ایک جامع مضمون قلم بند کر چکے ہیں، جس میں کابینہ ڈویژن کے کتابچے میں دی گئی معلومات سے استفادہ بھی شامل تھا۔ اُنہوں نے ازراہِ کرم مجھے اپنا مقالہ بھیجا تو پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ایک اور قاری نے بھی میری تصحیح کی۔ میری معلومات میں اضافہ ہوا کہ زیڈ اے بخاری کی شاعری پر مبنی کتاب ’’نیشنل بک فائونڈیشن‘‘ نے اُن کی وفات کے بہت سال بعد شائع کی تھی۔

قومی ترانے کے حوالے سے ایک اور بات کرتا چلوں۔ قومی نغمے بہت سے ہو سکتے ہیں مگر قومی ترانہ صرف ایک ہوتا ہے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان تقریباً ہر روز ایک نیا ترانہ پیش کرتا تھا۔ اِس دفاعی جنگ کے دوران شاعروں نے دن رات ایک کر دیا۔ نغموں کے لکھے بول پر، موسیقاروں نے دُھنیں ترتیب دیں اور ملی جذبے سے سرشار، نورِجہاں سمیت بہت سے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اِن ترانوں نے قوم کا حوصلہ بلند رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ کے بعد، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں صبح کے وقت پریڈ ہوتی تو ہمارے پائوں ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ کی دُھن سے ہم آہنگ ہو جاتے۔

1970ء کی دہائی میں شہناز بیگم کا گایا ہوا ایک اور قومی نغمہ ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اِس بے مثال نغمے کے بول مسرور انور نے تحریر کئے اور سہیل رعنا نے اِس کی دُھن ترتیب دی۔ اِسی طرح شعیب منصور کا، ’’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘‘ آج بھی پہلے کی طرح مقبول ہے۔ جنگ ِ ستمبر کے دنوں میں ایک ترانہ ’’اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘ تیاری کے مراحل میں تھا۔ اِسے ریڈیو پاکستان پر اکتوبر 1965ء میں پہلی دفعہ پیش کیا گیا۔ آج بھی شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے، یہ ترانہ آنکھوں کو بھگو دیتا ہے۔ اِن نغموں کے علاوہ اور بھی بہت سے اعلیٰ پائے کے قومی نغمے لکھے گئے اور مقبولِ عام ہیں۔ ’’قائداعظم ترا احسان ہے، احسان‘‘ اور ’’خیال رکھنا‘‘ آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ایک مقابلے کے نتیجے میں منتخب ہونے والا نغمہ، ’’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم، یہ پرچموں میں عظیم پرچم‘‘ بھی کسی سے کم نہیں۔ اِن ترانوں اور گیتوں کے بارے میں ہر کسی کی اپنی پسند ہے۔ میں صرف اُن کا ذکر کر رہا ہوں جو فوری طور پر میرے ذہن میں آئے۔

جب پاکستان کا قومی ترانہ تیار کیا جا رہا تھا تو بنگال سے تعلق رکھنے والے جناب جسیم الدین، کابینہ کمیٹی کے رُکن تھے۔ وہ صاحب قلم تھے اور بنگالی زبان کے ادیب اور شاعر بھی۔ جب اُنہیں احساس ہوا کہ 56% آبادی کی بنگالی زبان نظرانداز ہو رہی ہے اور پاکستان کا قومی ترانہ صرف اُردو میں لکھا جائے گا تو تجویز دی کہ قومی ترانے کے ساتھ، دو قومی نغموں کو بھی منتخب کیا جائے، جن میں سے ایک بنگالی زبان میں ہو۔ جناب نذرالاسلام قاضی، بنگالی زبان کے مشہور شاعر تھے۔ نذرالاسلام کی رومانی اور انقلابی نظمیں بنگالی نوجوانوں میں بہت مقبول تھیں۔ کابینہ کمیٹی نے اُن کا لکھا ہوا ایک نغمہ منتخب بھی کر لیا۔ کابینہ ڈویژن کے کتابچے میں نذرالاسلام کی نظم اور اُس کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ تجویز تھی کہ کلامِ اقبال سے بھی ایک نظم منتخب ہو اور دونوں نظموں کو سرکاری طور پر قومی نغموں کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے کلام سے ایک نظم کو منتخب کرنے کا عمل پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا اور یوں اِس تجویز پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

قومی نغمے کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یاد آئی۔ راقم نے 1990ء کی دہائی کے دوران استنبول میں قونصل جنرل کی ذمہ داری نبھائی۔ استنبول ایک تاریخی شہر اور تفریحی مقام ہے۔ پوری دُنیا سے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ اِن سیاحوں کے لئے، دو تین مشہور تفریح گاہیں ہیں۔ اِن میں بیلی ڈانسنگ اور ترک کلچر کے امتزاج پر مبنی پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ یہاں ترک گلوکاروں کو تقریباً ہر غیر ملکی زبان کے مشہور گیت اور ترانے یاد ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اِن تفریح گاہوں میں ترک گلوکاروں نے جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا گانا، ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ یاد کیا ہوا ہے۔ وہ اِسے خوشی سے گاتے ہیں کیونکہ شہناز بیگم کے گائے ہوئے اِس نغمے میں بار بار پاکستان کا نام آتا ہے۔ یہ گلوکار ہندوستان کا بھی ایک گانا گاتے ہیں۔ وہ فلمی گانا، راج کپور کی مشہور فلم ’’آوارہ‘‘ سے لیا گیا ہے اور اِس کے بول ’’آوارہ ہوں، آوارہ ہوں، گردش میں ہوں، آسمان کا تارا ہوں‘‘ ترک گلوکاروں کو شاید اس لئے بھا گئے کہ شنکر اور جے کشن موسیقاروں کی جوڑی نے اِس کی دُھن ترکی کے ایک مشہور گانے سے چرائی تھی۔

نغمے کی تخلیق میں پہلے سے لکھے ہوئے بول، سازوں سے ہم آہنگ ہوں گے یا دُھن پہلے سے ترتیب دی جائے گی، اِس بارے میں شاعروں اور موسیقاروں کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا۔ جو شاعری کو ایک مخصوص وجدانی کیفیت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، وہ دُھن پر بول لکھنے کو ایک غیر شاعرانہ فعل گردانتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے رقص کو اعضاء کی شاعری سے تعبیر کیا۔ اِسی مثال کے مطابق، موسیقاروں کے نزدیک، سازوں کی ہم آہنگی سے ترتیب دی ہوئی دُھن بھی ایک لحاظ سے شاعری ہی ہے۔ وہ بھی اِسے وجدانی کیفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ شاعر کسی دُھن پر بول لکھنے میں نہ صرف دقت محسوس کرتے ہیں بلکہ اِسے شایانِ شان نہیں سمجھتے۔ مناسب الفاظ کی نغمگی اور غنائیت، دُھن کے سُروں سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ قومی ترانے کے حوالے سے دُھن منظور ہو چکی تھی۔ اِس پر بول لکھنا ہر شاعر کے لئے باعث ِ عزت تھا۔ سب نے محنت کی مگر یہ اعزاز ابوالاثر حفیظ جالندھری کو نصیب ہوا کہ اُن کے لکھے ہوئے بول، چھاگلہ صاحب کی بنائی ہوئی دُھن سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گئے۔

دُھن پر بول لکھنے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ قارئین کی نذر کرتا جائوں۔ ساحر لدھیانوی، تقسیم کے بعد پاکستان آئے، مگر حالات سے مایوس ہو کر بمبئی چلے گئے۔ فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے کی کوشش میں ناکامی سے دوچار ہوئے تو نوبت فاقوں تک پہنچی۔ مشکل وقت میں کرشن چندر نے مدد کی۔ کرشن، بدخط تھے۔ اُنہوں نے امداد کے لئے ساحر کو اپنے افسانے خوشخطی سے لکھنے کا فرض سونپا۔ رہنے کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ رات گزارنے کے لئے ساحرؔ، کرشن کے دفتر میں میزیں جوڑ کر سو جایا کرتے۔ سارا دن فلم سازوں اور موسیقاروں کو اپنی غزلیں اور نظمیں بیچنے کی کوشش جاری رہتی۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا۔ تم بہت اچھے شاعر ہو مگر تمہارا کلام فلم کے لئے موزوں نہیں۔ ساحرؔ ایک حساس شاعر تھے اور اپنی شاعری پر بہت نازاں، مگر مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اِسی تگ و دو میں مشہور موسیقار، ایس ڈی برمن سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے ساحرؔ کو ایک دُھن سنائی اور کہا کہ اگر اِس پر مناسب بول لکھ دو تو تمہارا گیت خرید لوں گا۔ حالات کا جبر تھا کہ ساحرؔ راضی ہو گئے۔ اُنہوں نے مجبوری میں، دُھن کے مطابق بول لکھے۔ یوں یہ نغمہ ’’یہ رات، یہ چاندنی، پھر کہاں، سُن جا، دل کی داستاں‘‘ وجود میں آیا۔ 1952ء میں ریلیز کی گئی فلم ’’جال‘‘ کے لئے یہ گانا لتامنگیشکر اور ہیمنت کمار کی آواز میں رکارڈ ہوا۔ فلم کے ڈائریکٹر، گُرودت نے اِسے دیو آنند اور گیتا بالی پر فلمایا۔ ساحرؔ کا لکھا ہوا پہلا گانا مقبول عام ہوا تو اُس نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ پھر کئی دہائیوں تک موسیقار اُس کے لکھے ہوئے گیتوں اور غزلوں پر دُھنیں بناتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood