خالد اقبال، کیکٹس اور پرانا مکان۔۔۔ کون دیکھتا ہے؟


لاہور ایک اچھا شہر ہے۔ یہاں اگر کہیں سے تبادلہ کروا کے آیا جائے، تو انسان اپنے آپ کو دریافت کر سکتا ہے، مواقع ہیں، گنجائش ہے، وسعت ہے۔ بارہ تیرہ برس قبل جب روزی روٹی کے چکر میں لاہور ٹھکانہ بنا تو دفتر ماڈل ٹاؤن میں تھا۔ شروع کے دو مہینے رہائش بھی وہیں اوپر کے حصے میں تھی۔ ایک عدد گاڑی نئی نئی عطا ہوئی تھی، جو خود پرانی تھی مگر چلانے والے کے لیے نئی تھی۔ تو دفتر کے معاملات کے بعد جو بھی وقت بچتا ،وہ آوارہ گردی میں لگ جاتا۔ راستے کچھ خاص معلوم نہیں تھے۔ ڈائریکشنز اور راستے یاد رکھنے کی صلاحیت الحمدللہ اس وقت بھی نہیں تھی اور نہ آج ہے۔ لے دے کر ماڈل ٹاؤن کی گلیاں بچتی تھیں ،جو صبح شام کے اکیلے پن کی گواہ تھیں۔

جو احباب ماڈل ٹاؤن سے واقف ہیں، انہیں ماڈل ٹاؤن گول چکر کا بھی علم ہے۔ اس گول چکر نے کم از کم دو سال بعد اپنے تمام راستے فقیر کو یاد کروائے، ورنہ نری خواری والا سین تھا۔ کئی بار جانا کہیں ہوتا تھا، گاڑی نہ معلوم کہاں جا نکلتی، پھر پوچھ پچھا کر واپس آتا تو دوبارہ وہی شیطان کی آنت گول چکر۔ چار پانچ کلومیٹر پر محیط اس سرکلر روڈ نے چار پانچ سو دفعہ دھوکا دیا ہو گا، لیکن آج بھی، آدھا گھنٹہ اگر فارغ مل جائے ،تو اسی سڑک اور انہی گلیوں کا طواف جاری رہتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے راستے اپنا شہر چھوڑنے کے بعد پہلی محبت کا درجہ رکھتے ہیں۔ شاید بعض بلاکس میں پرانے مکان نظر آ جاتے ہیں، تو اس لیے یہ اپنے اندر جادوئی کشش رکھتا ہے، جیسے ڈی، جی، ایچ، ایف اور کئی دوسرے بلاک جہاں انیس سو بیس اور تیس کی تعمیرات ڈھونڈنے والوں کو اکثر مل جاتی ہیں۔ کائی زدہ اور بارشیں کھائی ہوئی دیواریں، پرانے لمبے چوڑے درخت، مکانوں کے چاروں طرف باقاعدہ لان، اکثر گھر صرف ایک منزل والے جہاں رہ کر انسان آسمان پر نہیں پہنچتا اور زمین سے جڑا رہتا ہے۔ کبھی کبھار گھروں کے پیچھے چھپے ہوئے ایک دو مندر اور نہ جانے کیا کیا۔

ایسے ہی لاہور شہر میں آئے ایک آدھ برس ہوا ہو گا۔ موسم اچھا تھا، دفتر سے فارغ ہو کر اسی کوچے میں دن سے رات کرنا شروع کر دیا۔ پودوں کا شوق اس وقت بھی تھا تو جس گھر کے باہر اچھے پودے نظر آتے، ایک نظر گاڑی روک کر سیر کی جاتی اس کے بعد فقیروں کی سواری بڑھا لی جاتی۔ اچانک ایک جگہ کیکٹس کے دو تین درخت نظر آئے۔ پہلے تو یقین نہیں آیا کہ یار پاکستان میں کیکٹس اتنا زیادہ کیسے بڑھ سکتا ہے؟ اور اگر بڑھ بھی جائے، تو کون شخص ہے، جس نے باغ کا ایک کونا ہی ایسے کانٹے دار پودوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے ،جو بعض اوقات بھائی لوگ ایک گملے میں نہیں برداشت کرتے۔ گاڑی روک لی۔ ملجگے سے رنگ کا لوہے والا بڑا دروازہ سامنے تھا۔ کارنر پلاٹ ہونے کی وجہ سے ایسا ہی ایک گیٹ دوسری سڑک پر بھی تھا، جو اسی گھر کا تھا۔ دونوں کے درمیان گاڑی لگا دی۔ جتنا دروازہ کھلا تھا، اس میں سے اندر جھانکا تو وہی پرانے ٹائپ کا زمین دوست ایک منزلہ گھر تھا۔ گوروں کے آرکیٹیکچر جیسی بنی ہوئی کوٹھی ،جس کے چاروں طرف نسبتاً اجاڑ سا باغ تھا، لیکن اس میں پائے جانے والے کیکٹس پوری موج میں تھے۔ انہیں تو چاہیے ہی اجاڑ جگہیں ہوتی ہیں۔ تقریباً چالیس پچاس قدم دور سامنے چار سیڑھیاں تھیں اور ان کے آگے برآمدہ تھا۔ جاتی سردیوں کی نرم گرم دھوپ نکلتی تھی اور آئن سٹائن نما ایک بزرگ ایزل پر لینڈ سکیپ ٹانگے اسے مکمل کر رہے تھے۔

khalid iqbal

کافی دیر تو اندر جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ پرائے گھر میں بغیر اجازت کیسے گھسا جا سکتا ہے اور کال بیل کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ وہ شاید اس لیے بھی نظر نہیں آئی ،کیونکہ شوق اندھا کر دیتا ہے، پھر وہ لمبا بے ہنگم درخت دیکھنے کی مستی نے کمر باندھی اور لے کر اندر چلی گئی۔ ان بزرگ سے چند قدم دور جا کے پھر کمر کھل گئی۔ پرایا گھر، بغیر اجازت انٹری، حد ہے! ادھر کھڑے کافی دیر انہیں دیکھا، تصویر دیکھی جو شاید کوئی لینڈ سکیپ تھا، وہ سر جھکائے اپنا کام کرتے رہے۔ دس پندرہ منٹ بعد سر اٹھایا اور کہا:جی، کیسے آئے ہیں؟ جواب دیا:سر باہر سے گزرتے ہوئے ان کیکٹس کے درختوں نے روک لیا، بہت معذرت کہ بلااجازت آپ کے آرام میں مخل ہوا، کیا میں انہیں قریب سے دیکھ سکتا ہوں؟دیکھ لیجیے اور اگر آپ کو شوق ہو تو مالی کو بھیج دیتا ہوں، کٹنگ لے لیجیے، پودا بن جائے گا۔ شکریہ ادا کیا اور واپس باغ کی راہ لی۔ مالی صاحب بھی آ گئے، ایک ایک فٹ کی دو کٹنگز مل گئیں ،جو گھر آ کر لگا دیں۔ بعد میں یہ معمول رہا ہے کہ اس راستے سے گزرتے ہوئے گاڑی آہستہ کر کے ایک نظر اس کوٹھی پر ڈالی جاتی، بزرگوار اور پینٹنگ اور کیکٹس نظر آ جاتے ،تو جیسے راستے کا ایک جز پورا ہو جاتا۔

khalid iqbal

ایک دن بہت عرصے بعد وہاں سے گزر ہوا تو وہ کارنر والا مکان پھر سے پلاٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ادھر دوبارہ تعمیر ہونا تھی۔ اب کی دفعہ ڈیزائن نئے طرز کا تھا۔ احمقانہ بات ہے، مگر ایسا لگا جیسے بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔ وہ گھر اب ملبہ تھا اور کیکٹس اپنے لگانے والے کا راستہ دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔ جنہوں نے یہ سب پودے لگائے تھے، وہ طویل عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں، شادی انہوں نے کی نہیں تھی، تو اب یہ گھر فروخت ہو کر شاید دوبارہ سے بننے کے مراحل میں تھا، لپیٹ میں سائیڈ والے دو باغ آنے کا بھی پورا امکان تھا اور وہ آ ہی گئے! یہ بزرگ خالد اقبال تھے۔ پاکستان میں لینڈ سکیپ پینٹنگ کے بادشاہ خالد اقبال !۔

2014ء میں اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک خالد صاحب پر ایک تعزیتی کالم نظر آیا، ساتھ تصویر بھی تھی۔ تب معلوم ہوا کہ جس کے گھر کا دورہ پودوں کے چکر میں کیا تھا، وہ بندہ کون تھا! کاش گھر کے مالک سے ملنے کو یہی چکر لگا ہوتا۔ خیر وہ پودے آج بھی گھر پہ ہیں اور میرے قد کے برابر ہو چکے ہیں۔ کولن ڈیوڈ اور اسلم منہاس جن کے شاگرد ہوں، وہ استاد کیسا ہو گا، سوچیے۔ 1974ء میں شاکر علی صاحب کے بعد خالد اقبال، این سی اے کے ہیڈ بھی رہے۔ ان کے شادی نہ کرنے کی وجہ بھی فن سے دیوانگی کی حد تک محبت بتائی جاتی ہے، تو خالد صاحب وہ دوسرے شخص تھے، جن سے فقیر اپنی کم علمی یا پہلے سے تصویر نہ دیکھنے کے باعث مل کر بھی مل نہ پایا۔

خالد اقبال اپنی بہن کے ہمراہ

پہلا شخص وہ تھا، جو اپنے گیٹ کے باہر اکڑوں بیٹھا دونوں ہاتھ گھٹنوں پر باندھے سر جھکائے نظر آتا تھا۔ ایم ڈی اے کالونی ملتان کے قریب ایک گھر میں جس وقت میں ٹیوشن پڑھا کے واپس جانے لگتا، اسی وقت شاید وہ بھی گیٹ پہ آ کر بیٹھتا تھا۔ اس کے سلیٹی رنگ کے سارے بال سامنے ماتھے پر ہوتے تھے اور وہ ایک فرل کی صورت کٹے ہوئے ہوتے جنہیں انگریزی میں بے بی کٹ کہا جا سکتا ہے۔ تو وہ ایسے بیٹھا نظر آتا، جیسے چاچا حقو بیٹھتے تھے۔ چاچا حقو ملتان والے پہلے گھر میں ہمارے پڑوسی تھے۔ مہر صاحب کے یہاں رہتے تھے، بلکہ شاید ان کے بھائی تھے۔ انہیں کبھی بولتے نہیں دیکھا تھا۔ مسلسل خاموش، وہ بھی شام کو گھر کی چوکھٹ پر عین ایسے ہی اکڑوں بیٹھ جاتے تھے۔ اب یہ چاچا حقو نما شخص اگر کسی دن گردن اٹھائے نظر آتا تو ایک سلام آتے جاتے یہاں سے بھی ٹھوک دیا جاتا، شاید کبھی ایک آدھ بار جواب ملا ہو، ورنہ ہوتا بالکل گم سم تھا۔ 2003ء تک یہ سلسلہ چلا، پھر ایک دن اخبار میں بڑی سی تصویر لگی اور ساتھ انتقال کی خبر آئی، تو معلوم ہوا کہ زوار حسین صاحب گزر گئے۔ ملتان کا ایک مصور، ادیب، شاعر، نقاد اور اعلیٰ پائے کا خطاط گزر گیا؛ چونکہ ان کی تصویر بھی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ،اس لیے باوجود تین چار برس سلام دین بنے رہنے کے، کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں۔

ایسے بہت سے واقعات سب کے ساتھ ہوتے ہوں گے۔ وجہ ادراک کا نہ ہونا، پہچان کا نہ ہونا کہی جا سکتی ہے۔ دنیا میں شاید ننانوے فیصد لوگ بغیر کسی پہچان کے مرتے ہوں گے، باقی ایک فیصد کو بھی جو پہچانتا ہے، وہ ان کے لیے تو مشہور ہیں، جو نہیں پہچانتا اس کی جانے بلا، وہ یا تو پودے دیکھتا رہ جاتا ہے یا سلام دین بنا رہتا ہے۔ میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے/ میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا، مجید امجد زندہ باد!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain