جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ میرا سفارتی کیریر بھی لے ڈوبا


آج سے تیس سال قبل 17 اگست 1988ء کو سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کا جہاز سی 130 بہاول پور کے قریب حادثے کا شکار ہوا، اور اس میں جنرل ضیاء الحق، جنرل اختر، بہت سے سنئر ملٹری آفسر سمیت اس وقت کے پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل، ان کے ملٹری آتاشی جنرل واسم سمیت 30 کے قریب اہم شخصیات لقمہ اجل بن گئیں۔ اس حادثے کے محرکات کی کھوج اور کرداروں کو سامنے لانے کے لیے اس کی کاوشیں ایک سینئیر امریکی سفارت کار کے اپنے سفارتی کیرئیر کو تباہ و برباد کر گئیں۔

ان دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے سیاسیات سال دوئم کا طالب علم تھا، اور ہمارے فائنل ایگزام چل رہے تھے۔ ٹھیک 17 اگست 1988ء کے دن ہمارا ”ویسٹرن تھاٹس“سبجیٹک کا پیپر تھا، جسے دینے کے لیے ہم دوست بغداد الجدید کیمپس (شہر سے 10 کلومیٹر باہر) سے بہاولپور شہر آنے کے لیے یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوئے۔ شہر کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے ہم نے جا بجا چوکوں پر پولیس سمیت بھاری تعداد میں فوجی جوانوں کو سیکورٹی پر مامور پایا۔ شہر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ ایسے ہی کنٹونمنٹ کی جانب سے آنے والی ایک بڑی شاہراہ پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے مخالف سمتوں سے آنے والی گاڑیوں کو روک دیا گیا تھا۔ ہماری یونیورسٹی بس بھی انہی گاڑیوں میں شامل تھی۔ اور ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق آج بہاولپور آئے ہوئے ہیں۔

ایسے میں میری نظر سائرن بجاتی ہوئی فوجی گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے پر پڑی جو ہمارے سامنے سے گزر رہا تھا۔ پانچ دس گاڑیوں کے گزرنے کے بعد میری نظروں نے بے اختیار کالے رنگ کی قومی پرچم لگی دو تین مرسیڈز نما گاڑیوں میں سے جنرل ضیاء الحق کو دیکھنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھیں مگر ایک تو کالے شیشے، دوسرا گاڑیوں کی سپیڈ اتنی زیادہ تھی کہ ایسا ممکن ہی نہ ہو سکا۔

ہم نے حسبِ معمول اپنا پیپر دیا، چونکہ سبھی دوستوں کا پرچہ چند سوالات آوٹ آف کورس ہونے کی بنا پر اتنا اچھا نہیں ہوا تھا، اور اگلے پیپر سے پہلے بیچ میں دو چھٹیاں تھیں، لہذا ہمارے ایک لاہوری دوست ظہیر الدین بابر نے تجویز دی کہ کیوں نہ اگلے پیپر سے دل و دماغ فریش کرنے کے لیے مقامی سینما گھر میں نئی آنے والی فلم دیکھی جائے، تھوڑی بحث و تمحیص کے بعد تجویز منظور ہوئی اور ہم چار دوست تین بجے کا شو دیکھنے سینما ہال چلے گئے۔ تقریباً ہاف ٹائم کے بعد نیچے ہال میں سے کسی نے آواز لگائی کہ ”ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے“۔

ہم اسے محض مذاق سمجھتے ہوئے فلم میں مگن رہے، فلم کے اختتام پر جب ہم باہر سڑک پر آئے تو دیکھا کہ جا بجا لوگ الیکٹرانکس کی دکانوں کے آگے کھڑے ہو کر پی ٹی وی کا خصوصی بلٹن سن رہے ہیں۔ ہم نے بھی وہیں ایک دکان پر کھڑے ہو کر طیارے کے حادثے کا بلٹن سنا، جس میں بتایا جا رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق بہاولپور ائرپورٹ سے چند میل دور تھانہ لودھراں کے علاقے “بستی لال کمال“ میں اپنے دیگر 30 ساتھیوں سمیت طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ تو یہ دیکھ کر میری نظروں کے سامنے دن کے پہلے پہر سائرن بجاتی ہوئی ان کی گاڑیوں کا قافلہ ایک فلم کی طرح چلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، باقی کے سارے حالات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

بہاولپور یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد سے آج تک یہ جستجو ہمیشہ سے رہی کہ آخر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ایسا کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ اور کیوں کیا؟ اس حوالے سے اس حادثے کی پراسراسیت کے بارے میں چھپنے والی بہت ساری تحقیقاتی رپورٹیں، اور کتابیں پڑھنے سے دلچسپی رہی کہ یہ گتھی سلجھے، مگر آج تک کوئی ایسی کریڈبیئیبل رپورٹ منظر عام پر نہیں آ سکی، چونکہ ہمارے اپنے اداروں کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہی نہیں، نتیجہ خیز اور حتمی رپورٹ کیسے آتی۔ اس واقعے کے بعد اس پر بین الاقوامی طور بہت کچھ لکھا گیا، کئی ایک عالمی تحقیقاتی صحافیوں سمیت ایک سابق امریکی سفیر جان گنتھر ڈین نے بھی اپنی سوانح عمری میں اس واقعے کا خصوصیت سے احاطہ کیا ہے۔

بین الاقوامی سیاسی اور اہم شخصیات کے اندھے قاتلوں (Assassinations) کی تحقیقات کرنے والے معروف امریکی تحقیقاتی صحافی ایڈورڈ۔ جے۔ اسپٹین نے ستمبر 1989ء میں امریکی جریدے ”وئینٹی فیر“ میگزین میں کئی صفحات پر مشتمل تحقیقاتی آرٹیکل بعنوان ”ضیاء کو کس نے قتل کیا“ لکھا۔

اس مقصد کے لیے وہ خصوصی طور پر پاکستان آئے اور جائے وقوعہ کے علاوہ بہاولپور ائرپورٹ کے عملے، طیارے کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں، اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے علاوہ اس حادثے سے جڑے درجنوں ایسے افراد سے ملے جن سے معلومات فراہم ہو سکتی تھیں۔

ایسی اور بہت ساری خامیوں کے علاوہ انہوں نے ملٹری ہسپتال بہاولپور میں تعینات ڈاکٹروں سے بھی اپنی گفتگو کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہسپتال میں طیارے کے دو پائلٹوں سمت عملے کے چار افراد کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لئے لائی گئیں، جنھیں دو دن ہسپتال میں رکھنے کے بعد ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں کے اندر امریکی اور پاکستانی پتھالوجسٹ ڈاکٹروں کی ایک مشترکہ ٹیم بہاولپور پہنچ کر لاشوں کے اجزاء کا پوسٹ مارٹم کرے گی۔

تاہم پوسٹ مارٹم کرنے والے ایسے ڈاکٹروں کی ٹیم کی آمد سے قبل ہی ہسپتال کی انتظامیہ کواعلیٰ حکام کی جانب سے احکامات موصول ہوئے کہ طیارے کے عملے کے ارکان کی لاشوں کے ٹکڑوں کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی الگ تابوتوں میں ڈال کر ان کے لواحقین کے حوالے کر دیا جائے۔

ایڈورڈ نے نے اپنی رپورٹ میں میں لکھا کہ ہسپتال میں سب سے معتبر ثبوت جس سے یہ ثابت ہونا تھا کہ کیا سی ون تھرٹی کے پائلٹوں کو مفلوج کرنے کے لیے کسی قسم کی مہلک گیس استعمال کی گئی تھی یا کہ نہیں۔ پائلٹوں کی لاشوں کو جان بوجھ کر پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کر کے حاصل ہونے والے بنیادی ثبوت بھی ہمیشہ کے لیے دفنا دیے گئے۔
The principal evidence of what happened to the pilots was thus purposefully buried

جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے پر اسی طرح کی ایک اور جامع تحقیقاتی رپورٹ نیویارک ٹائمز اخبار کی 1988 تا 1991ء تک ساؤتھ ایشیا کی بیوروچیف رہنے والی خاتون صحافی باربرا کروسیٹی نے تیار کی جس کو امریکی جریدے ”ورلڈ پالیسی جرنل“ نے ”Who killed zia“ کے عنوان سے شائع کیا۔ کس کا کیا کردار رہا۔ یہ فنی خرابی، یا محض ایک ایکیسڈنٹ تھا، یا پھر ایکٹ آف سبوتاژ تھا؟

اس رپورٹ میں میں کم و بیش اس واقعے کے حوالے سے تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں اس مفصل رپورٹ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

17 اگست 1988ء کو جب جنرل ضیاء الحق کا طیارے کا حادثہ ہوا اس وقت بھارت میں امریکہ کے سفیر جان گنتھر ڈین تھے۔ مسٹر ڈین نے 2009ء میں
:Danger Zones“ A Diplomat‘s Fight for America‘s Interest“

کے نام سے اپنی سوانح عمری لکھی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جان گنتھر ڈین لکھتے ہیں کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ اور اس کے محرکات کے کھوج اور کرداروں کو سامنے لانے کے لیے اس کی کاوشیں اس کے اپنے سفارتی کیرئیر کو تباہ و برباد کر گئیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2