صرف تحریکِ انصاف کے ورکرز اور سپورٹرز کے لئے


تحریک انصاف کے ورکرز اور سپورٹرز سے چند معصومانہ سوالات!
۱) کیا موروثی سیاست ہمارے ملک اور معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے؟
۲) کیا آپ موروثی سیاست کے خلاف ہیں؟
۳) کیا پاکستان تحریک انصاف اولین دن سے موروثی سیاست کے خلاف جدوجہد کا عزم لئے ہوئے تھی؟
۴) کیا عمران خان ہمیشہ دو ٹوک انداز میں موروثی سیاست کی مخالفت کرتے آئے ہیں؟
۵) کیا عمران خان موروثی سیاست کی مخالفت کرنے پر عوام سے ووٹ مانگتے آئے ہیں؟
۶) کیا عمران خان کو نئے پاکستان میں موروثی سیاست کے خاتمہ کرنے کا آغاز کرنا چاہئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، آپ ان سوالات کے جوابات خود اپنے آپ کو دے دیں۔ اگر آپ کے جوابات اثبات میں ہیں تو ازراہ کرم میرے ساتھ رہئے بصورت دیگر یہی رک جائییے اور نئے پارلیمنٹ میں موجود موروثیت کی پیداوار کا جشن منائیے۔
موروثیت درحقیقت ہے کیا؟ یہ سادہ الفاظ میں بغیر کسی ذاتی اہلیت اور قابلیت کے حکومتی اختیار اس بل بوتے پر حاصل کرنا ہے کہ آپ کا تعلق کسی خاص خاندان سے ہے؟ آپ کسی کے بیٹے، بیٹی، بھائی، بھتیجے، داماد وغیرہ ہیں اور اس لئے آپ کا خاندانی استحقاق ہے کہ آپ حکومتی اختیار کے مالک بنیں۔ پاکستان عرصہ دراز سے موروثیت کے آہنی شکنجے میں جھکڑا ہوا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں پچاس فیصد سے زائد نمائندے کسی نہ کسی حوالے سے موروثیت کے نمائندے ہیں۔ قومی وسائل اور اہم ترین معاملات میں فیصلہ سازی پر ان لوگوں کی اجارہ داری اس ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انتہائی ذہین اور فطین نوجوان صرف اس لئے پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکتے کہ ان کا تعلق کسی مضبوط سیاسی خانوادے سے نہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے چشم کشا اعداد و شمار انتہائی خطرناک اور اس ملک کے مستقبل کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ آپ ملک کے تمام حلقوں کا جائزہ لیں، آپ کو بیشتر حلقوں میں پہلے تین نمبر پر آنے والے امیدواروں میں سے دو کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی خاندان سے ملے گا۔ بدقسمتی سے موروثیت کی یہ وبا صرف صوبائی اور قومی اسمبلی تک ہی محدود نہیں بلکہ مقامی حکومتوں میں بھی اس نے نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھے ہوئے ہیں۔ کسی محلے کے کونسلر کا انتخاب بھی موروثیت کی بلا سے محفوظ نہیں۔
عمران خان نے جب سیاست کا آغاز کیا تو انصاف، احتساب، میرٹ اور شفافیت جیسے مسحور کن نعروں کے ساتھ ساتھ موروثی سیاست سے نجات کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ خان صاحب کی سیاسی اننگز کے رومان پرور آغاز  نے لوگوں کو امید دلائی کہ پاکستان تحریکِ انصاف اس ملک میں موروثی سیاست کی وبا کو مزید پھیلنے سے روکے گی۔ یہ امید تب تک بحال رہی جب تک خان صاحب کے ذہن پر ہر قیمت پر وزیراعظم بننے کا بھوت سوار نہیں ہوا تھا۔ خان صاحب لٹھ  لے کر الیکٹیبلز کے پیچھے نکلے تو وہی جماعت جس سے لوگ موروثی سیاست کو لگام دینے کی امیدیں لگا بیٹھے تھے، موروثی سیاست کی بڑھوتری کا باعث بن گئی۔
اب جبکہ خان صاحب خیر سے وزیراعظم بننے والے ہیں تو ان کے ہاتھ ایک اور سنہرا موقع لگا ہے کہ موروثی سیاست کے بے لگام گھوڑے کو لگام دیں۔ جلد ہی ملک بھر میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں خان صاحب کے لئے اپنے جینوین کارکنوں کا انتخاب کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان نشستوں کو خالی کروانے والے پہلے ہی اسمبلی پہنچ چکے ہیں بلکہ بعض تو اہل و عیال سمیت۔
آپ نوشہرہ کی مثال لے لیں۔ پختونخوا کے سابقہ وزیراعلی تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے یہاں سے گٹھ جوڑ کے ذریعے بمشکل صوبائی اسمبلی کی نشست نکالنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ کئی ایک جماعتیں تبدیل کرنے کے بعد جب انہیں تحریک انصاف کی چھتری میسر آئی تو اولین فرصت میں اپنے داماد کو قومی اسمبلی پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ وزیراعلی بنے تو ضلعی نظامت اعلی اپنے بھائی کی جھولی میں ڈال دی۔ تحصیل ناظم اپنے بیٹے کو بنا بیٹھے۔ خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر اپنے رشتہ داروں کے علاوہ بیوی کی رشتہ داروں کو اسمبلی پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
تازہ ترین کارنامے تو کہیں بڑھ کر ہیں۔ حالیہ انتخابات میں خود صوبائی اسمبلی کی دو اور قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہوئے، اپنے داماد کو ایک دفعہ پھر قومی اسمبلی پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشتوں پر اپنی رشتہ داریاں ایک دفعہ پھر خوب نبھائیں۔ اقتدار کی ہوس مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی، صوبائی اسمبلی کی دو خالی نشستوں کے لئے شہہ سوار تیار بیٹھے ہیں ایک پر براردرِ خورد اور دوسری پر فرزند ارجمند۔
نوشہرہ مریخ پر واقع نہیں اس لئے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ پورے ملک میں کم و بیش یہی صورتحال ہوگی۔ موروثی سیاست پر کاری ضرب لگانے کا اس سے بہترین موقع خان صاحب کے ہاتھ پھر نہیں لگے گا۔ نوشہرہ کی قومی اسمبلی کے دو نشستوں پر پی ٹی آئی کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹ پڑے۔ ان ووٹوں میں اگرچہ تحریک انصاف سے محبت کرنے والوں کے علاوہ ‘چمک’ اور دیگر عوامل کا بھی حصہ رہا ہے۔ کچھ ووٹس سابقہ وزیراعلی کو ذاتی طور پر بھی پڑتے ہیں لیکن اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف پر مر مٹنے والے نوجوان ان ووٹس کا اکثریتی حصہ ہیں۔ اس لئے خان صاحب کو اپنے لاکھوں حامیوں میں دو ایسے افراد ضرور ملیں گے جو کہ اسمبلی کے رکن بننے کے لئے درکار اہلیت کے حامل ہوں۔ خان صاحب کے لئے اپنے سابقہ وزیراعلی کی مرضی کے خلاف جانا انتہائی مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس لئے یہ نشستیں سابقہ وزیراعلی کے بیٹے اور بھائی کے پاس ہی جانے لگی ہیں لیکن تحریک انصاف کے ورکرز، سپورٹرز اور ووٹرز چاہیں تو یہ صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگر ایک مہم اٹھائی جائے اور خان صاحب کو دو ٹوک پیغام دیا جائے کہ بس بہت ہوگئی موروثی سیاست، اب اپنے دعووں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آپہنچا ہے تو اس اسمبلی میں چند اہل اور لائق افراد کو پہنچا کر اس کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ زمانے کے انداز اگر بدلے نہیں تو بدلنے ہوں گے۔ موروثیت نہیں بلکہ اہلیت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).