بہترواں یومِ آزادی اور نون لیگی مداری


پاکستان سمیت بیرونِ ممالک میں بھی بہترواں یومِ آزادی انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ لاہوریوں نے حسبِ روایت آتش بازی، ریلیوں اور جلسے جلوسوں سے اس دن کو یادگار بنادیا۔ لاہوریوں کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ رہی ہے کہ کوئی بھی تہوار ہو، مذہبی، ثقافتی یا قومی، لاہوریے منانا جانتے ہیں۔ یہ واقعی زندہ دل لوگ ہیں۔ میں گزشتہ دس سال سے اس زندہ دلانِ شہر میں مقیم ہوں، کئی قومی و مذہبی تہوار میں نے ان لوگوں کے ساتھ منائے لہٰذا میں اس حوالے سے ان کا ہمیشہ سے مداح رہا ہوں، یہی وجہ ہے کہ لاہور میں گزشتہ یومِ آزادی بھی جس عقیدت و احترام اور جوش و ولولے سے منایا گیا اس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔

نہ جانے کیوں اس دفعہ آزادی کا جشن مناتے ہوئے عجیب طرح کا سرور تھا جو اندر ہی اندر سرایت کر رہا تھا، عجیب طرح کی خوشی تھی جو کسی طور بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ شایدیہ تھی کہ اتنے سالوں بعد بے چارہ ملکِ پاکستان اُن چوروں اور لٹیروں کے قبضے سے آزاد ہو ا تھا جنہوں نے اس ملک کے ساتھ دشمنوں سے بدتر اور ناقابلِ برداشت سلوک کیا۔ حضرت جون ایلیا نے کہیں لکھا تھاکہ”پاکستان کے متولی خاندانوں، سرداروں، جاگیرداروں اور گزشتہ حکمرانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس نے پاکستان کی جڑیں نہ کھودی ہوں، یہ تو تاریخ کا حیرا ن کن واقعہ ہے کہ پاکستان آج بھی قائم ہے“۔

میں جب پچھلے اکہتر سالوں پہ نظر دوڑاتا ہوں تو یقین جانیں چیخ اٹھتا ہوں، کیا یہ وہ ملک ہے جس کے لیے ایک ملین لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خیر پاکستان نے جیسے تیسے کر کے اکہتر برس گزار دیے، اس طویل دور میں کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں، کس نے کتنا کھایا اور کتنا لگایا، اب یہ سب سوچنے کا وقت نہیں۔ آج تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گزشتہ تاریخ اور گزشتہ حکومتوں سے کتنا سبق سیکھا؟ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس ملک کے ساتھ جو جو کیا، عدلیہ ان کو معاف کرے یا نہ کرے، ان قومی مجرموں کوکوئی نیا این آر ا و ملے یا نہ ملے مگر یہ تو سچ ہے تاریخ ایسے ظالموں اور غاصبوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اڈیالہ جیل کی مختصر اور ”آسان ترین سزا“ تو یہ برداشت کرلیں گے مگر تاریخ کی طرف سے ملنے والی سزا یہ کبھی ہضم نہیں کر پائیں گے۔

آج جب پاکستان تحریک انصاف کی نئی قیادت نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی ہے، عمران خان کی طرف سے بنائی جانے والی کابینہ بھی حلف اٹھانے والی ہے اور پندرہویں قومی اسمبلی نے بھی حلف اٹھا لیا مگر نون لیگی مداری ابھی بھی یہ سب قبول کرنے کے لیے تیا ر نہیں، انہیں ابھی بھی لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب صاحبزادی اور داماد سمیت کسی بھی لمحے جیل سے باہر آئیں گے اور چوتھی دفعہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیں گے۔

مجھے تو اب نون لیگی کارکنان پر ترس آنے لگ گیا ہے، ان بے چاروں کی کوئی تو سمجھائے کہ اب خوش فہمیاں چھوڑ کر ملکی مفادات کے لیے سوچو۔ اس ملک اور بالخصوص پنجاب میں تیس سال شریف برادران نے خدمت کا ڈھونگ رچایا، اس ملک کی جڑیں اور ادارے اس حد تک کمزور کر دیے کہ اب وہ اپنا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے لہٰذا خدا را عمران خان کے تعصب میں اس حد تک ضدی اور ہٹ دھرم نہ ہو جائیں کہ بلی کو دیکھتے ہوئے جان بوجھ کرآنکھیں بند کر لیں، اب تو اس ملک پر رحم کریں۔

یہ لوگ تعصب میں عمران خان پر انتہائی مضحکہ خیز الزامات لگا کر، خامیاں نکال کر پتا نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ عمران خان نے حلف لیتے وقت کاغذ بائیں ہاتھ میں پکڑا لہٰذا یہ یہودی ایجنٹ ہے، کبھی کہتے ہیں کہ اس نے واسکٹ ملازم کی لے کر پہنی لہٰذا ایک لیڈر کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔ کبھی کہتے ہیں کہ اس نے زرداری اور شہباز شریف سے ہاتھ ملایا لہٰذا اس کا مطلب ہے ”دال میں کچھ کالا“ ہے۔ بھئی حد ہوتی ہے ذہنی مریض ہونے کی بھی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ”آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو“۔

جیسے کچھ دن پہلے کراچی کے ایک ایم پی اے نے کسی شہری پہ تشدد کیا، پارٹی نے چند گھنٹوں میں اس کو نہ صرف شوکاز نوٹس جاری کیا بلکہ وہ ایم پی اے اس شخص کے گھر جا کر معافی مانگنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ واقعہ اگرچہ غلط ہے مگر اس واقعے کو جس انداز میں پراپوگیٹ کیا گیا، وہ سمجھ سے باہر ہے۔ آپ اس مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی فہرست نکالیں اور ان پر بے تحاشا مقدمات کی فہرست بھی دیکھ لیں اور پھر اس واقعے کو جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ صرف پی ٹی آئی ہی کیوں تنقید کا نشانہ بنائی جا رہی ہے۔ نو ن لیگ کے ایک ایک رہنما کا تھانوں سے کیس ڈیٹا نکلوا لیں اور ان مداریوں کو دکھائیں مگر پھر بھی یہ مداری اُن پر کچھ نہیں بولیں گے۔

میں نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ انہیں مسئلہ صرف تحریک انصاف سے ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ عمران خان ان سب کا جو حشر کرنے والا ہے وہ ان کی سوچ سے بھی بڑھ کے ہے۔ اگرچہ یہ پوری تیاری کے ساتھ اتحاد بنا کر اپوزیشن میں آئے تھے (اتحاد تو ٹوٹا ہی مگر فارورڈ بلاک بھی بن گیا، نون لیگ اپنے ایم پی ایز تک نہ سنبھال پائی) مگر یہ بات بھی طے ہے کہ جس طرح عمران خان نے اپوزیشن کر کے دکھائی یہ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ اس کی سادی سی وجہ اِن کی مفاد پرستی ہے۔ عمران خان کے سامنے صرف اور صرف ملکی مفاد تھا لہٰذا وہ پانچ سال اپوزیشن میں بیٹھا، نہ ڈرا اور نہ ہی جھکا بلکہ ان چوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس کے مقابلے میں نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے سامنے صرف ان کا ذاتی مفاد ہوگا۔ ان کے اتحاد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ابھی وزارت عظمیٰ کا الیکشن ہوا نہیں، پی پی پی اور نون لیگ کے درمیان اتحاد ٹوٹ بھی گیا یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کو شہباز شریف بطور وزیر اعظم قبول ہی نہیں۔ میرے کچھ دوستوں کا خیال تو یہ بھی ہے کہ بلاول کی شکل میں ایک نیا بھٹو سامنے آ گیا ہے اگرچہ یہ محض خوش فہمی ہے کیونکہ بلاول زرداری کوایک لیڈر یا بھٹو کا وارث بننے میں بہت عرصہ لگے گا۔

ابھی تو بلاول بے چارے کو کسی اچھی یونیورسٹی میں تقریر کرنے کے گُر سیکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ اردو میں بغیر پرچی کے تقریر کرنا سیکھ جائیں گے تو بھٹو بننے کا خواب بھی کسی حد تک شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ المختصر میری نون لیگی مداریوں سے گزارش ہے کہ پچھلے تیس سال اس ملک کو آپ نے اپنی مرضی سے چلایا، اب خدارا تحریک انصاف کو کام کرنے دیں، اگر یہ بھی کچھ ڈلیور نہ کرسکے تو اگلے الیکشن میں میں خود بھی تحریک انصاف کو معاف نہیں کروں گا کیونکہ یہ قلم میرے وطن کے لوگوں کی امانت ہے، اس میں خیانت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).