نئی پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاسوں کا آنکھوں دیکھا احوال


شہر اقتدار کے رنگ نرالے ہیں۔ سپریم کورٹ، ایوان صدر، پرا ئم منسٹر ہاوس، سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ کی بڑی بڑی عمارات دیکھ کر ایسا لگا کہ اصل شہر تو یہ ہے جہاں ہمارے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے بستے ہیں۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ میں بیٹھ کر اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کی حالت زار اور کرپشن کیسز کا نوٹس لے رہے ہیں۔ ڈیمز بنانے کی تگ و دو میں ییں۔ اور بھی بہت سے ایسے اہم ایشوز کو دیکھ رہے ہیں جو حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ایوان صدر میں بھی ایک صاحب بیٹھتے ہیں۔ جن کا نام ممنون حسین ہے۔ اور وہ ہمارے صدر ہیں۔ ان کا اب تک کا سب سے اچھا کام یہ ہے کہ انھوں نے وزیراعظم کا حلف لینے کے لئے اپنا بیرونی دورہ معطل کیا۔ پرائم منسٹر ہاؤس میں عمران خان براجمان ہونے والے ہیں اور نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں۔ سیکرٹریٹ میں بیوروکریسی اپنے کام سر انجام دے رہی ہے۔ ایک طاقتور بیوروکریسی، جو سیاست دانوں کو تگنی کا ناچ نچواتی ہے۔ اور سب سے اہم ہماری پارلیمنٹ جہاں ملک بھر سے وہ لوگ آتے ہیں جنہیں ہم اپنا ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کر سکیں۔

اسلام آباد میں چند روز گزار کر لاہور واپس آ نے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے باغیچے میں پھول ہیں مگر خوشبو نہیں، سورج کی کرنیں ہیں مگر اجالا نہیں، پرندوں کی آوازیں ہیں مگر چہچہاہٹ نہیں۔ اور صحافی ہونے کے ناتے ایسا لگ رہا ہے کہ اخبار میں الفاظ بھرے پڑے ہیں مگر خبر کوئی نہیں۔

میرا خیال ہے کہ چند دنوں میں اپنی اوقات میں واپس آ جاؤں گا اور کہوں گا کہ لہور لہور اے۔ اور سب کچھ ٹھیک لگنا شروع ہو جائے گا۔ بہر حال اسلام آباد میں گزارے چند دن آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اور پارلیمنٹ میں جو مشاہدہ کیا، وہ قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے صبح صبح پارلیمنٹ کے اجلاس کا احوال جاننے کےلئے منصور آفاق اور انوار حقی صاحب کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بہت ہی پیارے دوست تنویر حسین ملک صاحب نے ویلکم کیا۔ تنویر بھائی پچھلے 20 سال سے ایوان زیریں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چپڑاسی سے لے کر ایم این اے تک ہر بندہ تنویر بھائی کی بہت عزت کرتا ہے۔ اللہ پاک ان کی عزت میں اور اضافہ کرے۔

تنویر بھائی سے مل کر ہم اسمبلی کے احاطہ میں داخل ہوئے اور اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لۓ اسپیکر گیلری میں بیٹھ گئے۔ ارکان اسمبلی ایم این اے کاحلف لینے باری باری تشریف لا رہے تھے۔ ایوان کھچاکھچ بھر رہا تھا۔ جیسے ہی عمران خان اسمبلی تشریف لائے، پی ٹی آئی کے اراکین نے ڈیسک بجا کر ایوان کو گرما دیا۔ تمام اراکین اسمبلی ایک دوسرے کو ہاتھ ملا کر مبارک بادیں دے رہے تھے۔ بلاول بھٹو تمام اراکین اسمبلی کی توجہ کا مرکز بنے ہونے تھے۔ عمران خان بلاول بھٹو کے پاس خود گئے، ان سے ہاتھ ملایا اور ویلکم کیا۔ بلاول نے بھی عمران خان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور پاس کھڑے کیمرہ مین کو عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے منظر کو عکس بند کرنے کو کہا۔ جو کہ ایک خوش آئند بات تھی۔ عمران خان شاید بلاول کو یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ وہ ایک نیا نوجوان سیاست دان ہے اور اگر وہ کرپٹ لوگوں کا ساتھ نہیں دے گا تو مل کر چلا جا سکتا ہے۔ سپیکر ایاز صادق نے 340 اراکین اسمبلی سے حلف لیا۔ اسمبلی میں جہاں، عمران خان، آصف علی زرداری، خورشید شاہ، شہباز شریف، خواجہ آصف شاہ محمود قریشی جیسے نمایاں اور مانوس چہرے تھے، وہاں فرخ حبیب، قاسم خان سوری، فیصل واڈا، سعد وسیم جسے نئے چہرے بھی نظر آئے۔ جو کہ اسمبلی کی رونق کو دوبالا کر رہے تھے۔

اسمبلی کا سیشن ختم ہوا اور ہم اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں کھانے کی تلاش میں چل دیے۔ تنویر بھائی کی میزبانی میں قبلہ منصور آفاق اور عمران خان کے دیرینہ دوست انوار حقی صاحب کے ساتھ کھانا کھایا۔ اسمبلی کے دوسرے دن کا سیشن دیکھنے کے لئے تنویر بھائی سے وعدہ لیا۔

رات کو کوہسار مارکیٹ میں سینیر جرنلسٹ مظہر برلاس صاحب سے ملاقات ہوئی۔ برلاس صاحب کے پاس خبروں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایسی ایسی باتیں بتائیں جن کےلئے ایک صحافی ہاتھ پاؤں مارتا رہتا یے اور مشکل سے کوئی خبر حاصل کرپاتا ہے۔ اگلے روز پھر پارلیمنٹ کی راہداریوں کی طرف چل نکلے۔ اسد قیصر اور قاسم خان سوری کی ووٹنگ کا جائزہ لیا۔ دونوں اراکین اسمبلی آسانی سے جیت گئے۔ اسد قیصر کے جیتنے کے بعد ن لیگ کے اراکین نے اسمبلی میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور نعرے لگائے “شرم کرو حیا کرو، نواز شریف کو رہا کرو”۔ اسد قیصر نے اپنے سپیکر شپ کے تجربے سے ہاؤس کو 15 منٹ کے لئے معطل کر دیا۔ اسی دوران ہم بھی وہاں سے نکل دیے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی تبدیلی کا نعرہ اسمبلی سےنکل کر کیسے گلی کوچوں تک پہنچے گا۔ کیسے ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی۔ کیسے پچاس لاکھ گھر وں کی تعمیر ہو گی۔ اگر پی ٹی آئی اپنے وعدوں کی تکمیل نہ کی تو ان کا حال بھی وہی ہو گا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).