لڑکیاں برائلر چکن ہیں


ایبٹ آباد کے گاؤں مکول کی نویں جماعت کی طالبہ عنبرین کی ہلاکت کی خبر اڑتالیس گھنٹے چھوڑ اڑتالیس منٹ بھی میڈیا پر نہ ٹکتی اگر اسے نام نہاد جرگے کی جانب سے سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کے نتیجے میں سوزوکی کیری ڈبے میں بند کر کے جلایا نہ جاتا۔ اب تک تو پسند کی شادی، گھر سے بھاگ جانے اور مشکوک مراسم کے شبہے میں ہی لڑکیوں کے قتل کا رواج تھا مگر عنبرین کا قتل بربریت کا اگلا اسٹیج ہے۔

اسے جلانے کا سبب یہ ہے کہ بقولِ جرگہ عنبرین نے اپنی کسی سہیلی کو پسند کی شادی کے لیے گاؤں سے بھگانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حالانکہ اسے مقامی روایات کا پاس کرتے ہوئے ”بے غیرت سازش ‘‘کا حصہ بننے کے بجائے بطور اچھی لڑکی اپنی سہیلی کی مخبری کرنا چاہیے تھی۔ تاکہ عنبرین کے بجائے اصل لڑکی کو پکڑ کے زندہ جلایا جاتا۔

مگر اس جرگے نے عنبرین کو تھوڑی جلایا۔ بچیوں سے سلوک کی بابت خدائی احکامات و اسلامی روایات، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر، آئینِ پاکستان اور ریاستی رٹ کو نذرِ آتش کیا ہے۔ لیکن ریاست اپنی رٹ کے طرح طرح سے ریپ کی اس طرح عادی ہو چکی ہے کہ منٹو کے افسانے ” کھول دو ‘‘کا مرکزی کردار لگنے لگی ہے۔

مگر ریاست کسی خلائی مخلوق کا نام تو نہیں۔ یہ تین بنیادی ستونوں میں کھڑی عمارت ہے یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔

کہنے کو ووٹرز لسٹ میں جتنے بھی نام درج ہیں ان میں سے نصف خواتین کے ہیں۔ چند علاقوں کو چھوڑ کے خواتین ہر انتخاب میں جوش و خروش سے حصہ بھی لیتی ہیں۔ مگر ان ووٹوں کے بل پر منتخب ہونے والی مقننہ ( پارلیمنٹ) کا حال یہ ہے کہ عورتوں کے تحفظ کا جو بھی قانون بنانے کی کوشش ہوتی ہے اس پر پہلا حملہ پارلیمانی اکثریت یعنی مردوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بادلِ نخواستہ عورتوں کے حق میں قانون سازی کرنا بھی پڑ جائے تو بل یا ایکٹ کے دودھ میں اتنی مینگنیاں ڈال دی جاتی ہیں کہ قانون سازی کا مقصد ہی پانی ہوجاتا ہے۔

مثلاً دو ہزار پانچ میں پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کی گئی کہ قاتل کو مقتول کے ورثا عدالت میں مقدمہ دائر ہونے کے بعد ازخود معاف نہیں کرسکتے کیونکہ اس معافی کے پیچھے لالچ اور خوف بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بابت حتمی فیصلہ جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ ورثا کے درمیان ”تصفئیے ” کو تسلیم کرتا ہے کہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے کی طرح آج بھی طاقتور پارٹی ” تصفئیے ” کی سہولت اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔

سینیٹ نے مارچ دو ہزار پندرہ میں سینیٹر صغری امام کے پیش کردہ دو بلوں کی سال بھر غوروخوض کے بعد منظوری دے دی۔ ایک بل میں اجتماعی ریپ کے لیے سخت ترین سزا تجویز کی گئی جب کہ دوسرے بل میں غیرت کے نام پر قتل کو تین سو دو کے قتل کی طرح تھرڈ ڈگری مرڈر کے خانے میں رکھا گیا۔ جس کی کم ازکم سزا عمر قید یا موت تجویز کی گئی۔ مگر قومی اسمبلی میں یہ بل منظور نہ ہو سکے۔

گذشتہ ماہ حکومت اور اپوزیشن میں پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق بل کی منظوری کے عوض یہ سمجھوتہ ہوا کہ صغری امام کے دو بلز سمیت عورتوں کی سلامتی سے متعلق چار قوانین کی پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں منظوری دی جائے گی۔ تاہم اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کے بہت سے ارکان نے غیرت کے نام پر قتل سے متعلق سخت سزاؤں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو ان بلز کی منظوری ایک بار پھر التوا میں پڑ گئی۔

سندھ اسمبلی نے مارچ دو ہزار تیرہ میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کا قانون منظور کیا۔ تاہم اس پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کے لیے کوئی قابلِ عمل ڈھانچہ بشمول بائی لاز آج تک سامنے نہیں آ سکا۔ چار ماہ قبل گلگت بلتستان اسمبلی نے سیکریٹری قانون کی جانب سے پیش کردہ کم عمری میں شادیوں پر پابندی کا بل مسترد کر دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی ارکانِ پارلیمان جب اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سیمیناروں سے خطاب کرتے ہیں تو ان سے بڑا عورتوں کے حقوق کا چیمپئین کوئی نہیں ہوتا۔ جب یہ سرکاری ٹکٹ پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان سے زیادہ روشن تجاویز کوئی نہیں پیش کرتا۔ مگر جب اپنے گاؤں میں ہوتے ہیں تو ان کی زیرِ صدارت جرگے عورتوں کی قسمت اور زندگی موت کا فیصلہ کرتے ہیں اور جب اسمبلیوں میں ووٹنگ کا وقت آتا ہے تو یہ چوڑیاں پہن لیتے ہیں۔

جہاں تک عدلیہ کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کئی برس پہلے جرگے کی روایت اور جرگے کے فیصلوں کے نتیجے میں ونی، سورا اور سنگ چٹی کی روایات کو کالعدم اور غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ لیکن آج بھی جرگے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دھڑلے سے روند رہے ہیں۔

جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل کا معاملہ ہے تو اگرچہ وہ ایک مشاورتی ادارے ہے اور اس کے فیصلے بائنڈنگ نہیں اور اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ یا حکومت یا کوئی سرکاری ادارہ کسی معاملے یا مسودے پر کوئی رائے طلب کرے تو نظریاتی کونسل اس پر فقہی رائے دے دے۔ پھر یہ رائے لینے والے کی صوابدید ہے کہ وہ اس پر پورا عمل کرتا ہے یا جزوی۔ لیکن پچھلے چند برس سے دیکھا جا رہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنے طور پر ہر معاملے پر رضاکارانہ رولنگ دینے لگی ہے۔

کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن پر کونسل کے اندر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا مگر کونسل کے چیئرمین نے ان فیصلوں، رولنگز اور آبزرویشنز کو ایسے پیش کیا جیسے یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ رائے ہو۔ مثلاً یہی کہ ریپ کیسز میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں مانا جاسکتا ( حالانکہ کئی مسلمان ممالک ڈی این اے رپورٹ کی اہمیت مان رہے ہیں )۔

مثلاً یہی کہ انیس سو باسٹھ کے عائلی قوانین کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر کی شادی غیر قانونی ہے اور پاکستان میں نکاح خواں جو فارم استعمال کرتے ہیں وہ انھی عائلی قوانین کے تحت شایع کیا جاتا ہے۔ مگر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین گاہے ماہے رضاکارانہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ عمر کی کوئی قید نہیں اور مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ عام آدمی کنفیوز ہو جاتا ہے کہ وہ کونسل کے چیرمین کی بات پر دھیان دے کر نافذ عائلی قوانین کو ماننے سے انکار کردے یا پھر ان عائلی قوانین کو تسلیم کرکے چیرمین کے بقول غیر شرعی حرکت کا مرتکب ہو۔

ایک مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں بیک وقت اینگلو سیکسن عدالتیں، شرعی عدالتیں اور جرگہ راج چل رہا ہے۔ ان حالات میں جب عورتوں کے قتل، غیرت، عزت یا پسند کی شادی وغیرہ کا معاملہ آتا ہے تو حقوق کی پامالی کرنے والے کو خودبخود سہولت مل جاتی ہے کہ اگر طاقتور ہے تو جرگے کے نام پر خود ہی قانون بن جائے یا پھر گھر کی چار دیواری کے اندر ہی گلا گھونٹ کے دفن کردے۔ چاہے تو ایس ایچ او کے مشورے سے اینگلو سیکسن عدالت کے روبرو چالان میں کمزور قانونی دفعات ڈلوا دے۔ جب تک متوازی قوانین نافذ رہیں گے بے انصافی اور ظلم کا تدارک ممکن نہیں۔

بیشتر پاکستان میں انتظامیہ کا مطلب پولیس اور تھانہ ہے۔ عالم یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گذشتہ دو برس میں غیرت کے نام پر بارہ سو چھہتر قتل ہوئے۔ ان میں سے تقریباً چار سو کیسز کی ایف آئی آرز ہی درج نہ ہو سکیں۔ صرف انھی کیسزپر انتظامیہ حرکت میں آتی ہے جن پر میڈیا شور مچائے اور بالا حکام خود پر سے توجہ ہٹانے کے لیے تحقیقات کا حکم دے دیتے ہیں۔ جیسے ہی شور کم ہوتا ہے مظلوم خاندان کو چاروں طرف سے دھونس، دھمکی اور لالچ کے ناگ گھیر لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جسے ہم مظلوم خاندان سمجھتے ہیں وہ بھی بعض اوقات مظلوم نہیں ہوتا۔ اکثر ایسی وارداتوں میں ماں، باپ، بھائی ملوث ہوتے ہیں اور اپنے ہی خون کا خون کرکے ایک دوسرے کے گلے مل کے رو لیتے ہیں۔

اگر غیرت کے نام پر قتل کی سماجی روایت درست ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ اس کے حق میں خاندانی و سماجی رواج کی دلیل لاتے ہیں اگر انھیں اپنے فعل کی صداقت پر یقین ہے تو خم ٹھونک کے کیوں نہیں کہتے کہ ہاں ہم نے قتل کیا ہے۔ ایک جانب تو تم عنبرین کو جلاؤ اور پھر اسے تسلیم کرنے کے بجائے جھوٹ بولو کہ یہ کوئی حادثہ تھا اور یہ کام ہم نے نہیں کیا۔ کچھ غیرت خود کے لیے بھی تو کھاؤ۔

بات یہ ہے کہ ہم سب اندر سے شاید یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے لڑکے دیسی مرغوں کی طرح آزاد ہوں اور ہماری لڑکیاں برائلر چکن کی طرح شیڈ میں پیدا ہوں، پنجروں میں دانہ دنکا چگتے بڑی ہوں اور پھر خاموشی سے چھری تلے آجائیں۔ ( اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اتنا لمبا مضمون باندھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی )۔
10 مئی 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).