کیا طرز حکمرانی بھی پہلی تقریر جیسا ہو گا؟


ویسے تو شاید و باید ہی کوئی پاکستانی سیاتدان کوثر و تسنیم میں دھلی زبان استعمال کرتا ہو گا،تاہم پھربھی بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی زبان سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور بے جا طعن و تشنیع سے آلودہ نہیں ہوتی۔ان کی تقریر میں دریا کی سی روانی اور زبان و بیان کی بے ساختگی اور شستگی بے شک نہ ہو مگر ان کے ہاں بے محل شعلہ نوائی اور ہرزہ سرائی بھی نہیں ہوتی۔لیکن زیادہ تر ایسے ہیں کہ ہر وقت جن کی زبان شمشیر برہنہ بنی رہتی ہے۔بے ربط اور بے موقع وہ دشنام طرازی اور الزام تراشی میں ید طولی رکھتے ہیں۔ان کا حال بقول شاعر یہ ہوتا ہےکہ :کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی۔

وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جناب عمران خان کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی پہلی تقریر ہر حلقے میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔اس بےربط اور بے محل الزام تراشی اور دھمکی آمیز گفتگو کا معیار اس قدر پست تھا کہ بعد میں جناب شاہ محمود قریشی کو اس کے دفاع میں بہت سی وضاحتیں دینا پڑیں

سنا ہے جناب عمران خان تقریر لکھ کر لائے تھے اور یہ پرچیوں کی شکل میں ان کی کسی جیب میں بھی پڑی تھی مگر وہ خود اور ان کی پارٹی نواز شریف پر دیکھ کر تقریر پڑھنے کے حوالے سے اس قدر سخت اور غیر منطقی تنقید کرتے رہے ہیں کہ آج ایوان میں اگر وہ نواز شریف کی تقلید کرتے تو ان کی وہ بھد اڑتی کہ الحفیظ و الاماں۔ حالانکہ خان صاحب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ قائد اعظم سمیت دنیا کے بڑے بڑے لیڈر دیکھ کر تقریر کرنے میں عار یا سبکی محسوس نہیں کرتے تھے۔ دیکھ کر تقریر کرنا عیب نہیں، تقریر کے نام پر وہ کچھ کرنا معیوب ہے جو پارلیمنٹ میں خان صاحب سے سرزد ہوا ہے۔ اگرچہ خان صاحب کا مؤقف اس حوالے سے یہ رہا ہے کہ

ہر ایک کی طبیعت کے موافق نہیں ہوں میں
کڑوا ضرور ہوں مگر منافق نہیں ہوں میں

مگر پارلیمنٹ کی پہلی تقریر میں تو انہوں نے قوم کو بہت مایوس کیا۔چہرے پر وہی غصہ، رعونت، نفرت، غرور، خود پسندی، بیزاری اور اشتعال۔زبان پر وہی کنٹینر والی روایتی باتیں، دشنام اور الزام تراشی۔ کہا کہ کسی ڈاکو سے کوئی این آر او نہیں ہو گا۔یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ جس کو انہوں نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا اسے انہوں نے پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا ہے۔ شاید یہ لب و لہجہ انہوں نے اپوزیشن کے مشتعل کرنے پر اختیار کیا۔گویا اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہی اور انہوں نے اصل عمران کو سب کے سامنے لا کھڑا کیا۔

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے گزارے لائق
اور کوئی حکم، کوئی کام ہمارے لائق

بہرحال اگر مستقبل میں بھی خان صاحب کی تقریروں کا یہی معیار رہا تو ممکن ہے بہت جلد پی ٹی آئی والے ایوان میں یہ نعرہ لگانا شروع کر دیں کہ “پرچی کو عزت دو”۔تاسف انگیز بات یہ بھی ہے کہ عمران کا صرف لب و لہجہ ہی ان کے منصب کے معیار سے گرا ہوا نہیں تھا بلکہ انہوں نے غلط بیانی سے بھی کام لیا۔مثال کے طور پر چار حلقوں کے حوالے سے انہوں نے یہ کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے ڈھائی کروڑ ووٹوں کو بوگس قرار دیا اور دھاندلی کا انکشاف کیا۔حالانکہ کمیشن نے اس حوالے سے صرف بد نظمی کا کہا تھا۔خان صاحب جانتے ہیں کہ بد انتظامی اوردھاندلی میں بعد المشرقین ہے۔حسن اتفاق سے خان صاحب کی قیادت میں اگر ہم نےگرنے پڑتے ورلڈ کپ جیت ہی لیا تو کیا ضروری ہےکہ وہ موقع بے موقع قوم کو احسان جتلا کرزچ کرتے رہیں۔وہ نیوٹرل امپائرز کی تقرری کا سہرا بھی اپنے سر باندھتے یہں حالانکہ آئی سی سی بہت پہلےسے اس حوالےسے کام کر رہی تھی۔بلی کےبھاگوں اگر چھینکا ٹوٹ بھی گیا تو کیا لازم ہے کہ پہلی تقریر میں اس کا ذکر کیا جائے؟میں تو گمان کر رہا تھا کہ جناب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے اوپر چلنے والے کیسز کا ذکر کر کے رضا کارانہ طور پر اس وقت تک مستعفی ہو کر کسی اور کو موقع دیں گے جب تک ان کیسز کا فیصلہ نہ ہو جائے کیونکہ یہی مطالبہ وہ نواز شریف سے بھی کیا کرتے تھے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔مجموعی طورپر ان کی پہلی تقریر بہت ناقص، غیرمتعلقہ، بےمحل الزام نامہ اور تہذیب و شائستگی سے کافی دور تھی۔ہم بصد احترام ان کی خدمت میں بقول شاعر یہی عرض کریں گے کہ

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی توبگڑی تھی،خبرلیجے دہن بگڑا

ہم بالکل امید نہیں کرتے کہ ان کا دور حکمرانی بھی ان کی پہلی تقریر کی طرح بے ہنگم اور حقیقت پسندی سے دور ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).