ساقی فاروقی کی پاپ بیتی


مجھے معلوم تھا کہ سلیم ناشتہ کیے بغیر آئے ہوں گے۔ اس لیے اماں کے بنائے ہوئے کبابوں ، چانپوں اور روغنی ٹکیوں (روٹیوں کی موٹی موٹی، گدر گدر، چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ) کی سینی (ٹرے ) رکھ کر نجم فضلی کے چولھے پر چائے بنا کر پوچھا، “میریا غالب یا اقبال؟” کہنے لگے ، “نہیں آج سودا بازی ہو گی۔ ” چنانچہ سودا کے دیوان کا کمپا لگا کر میں اپنے گھر لوٹ آیا اور ہم دونوں بے چاری فاختہ کا انتظار کرنے لگے۔ گاہے گاہے گلی سے کوئی سوٹ، کوئی کتا، کوئی برقع گذرتا تو چوکنے اور چوکس ہو جاتے (پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے۔ مخدوم) مگر آنے والا بجائے دس کے گیارہ بجے آیا۔ داغ کی طرح تمام عمر تو نہیں مگر ایک گھنٹے، قیامت کا انتظار کیا۔ شاید اسی روز مجھ پر یہ ناگوار حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ میں اپنی انا کے احیا اور نا انصافی کے تدارک کے لیے اپنی بے رحم محبوبہ کو بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ غرض کہ محبوبہ کا زوال محبوب کا زوال بھی ہے …or vice versa۔

ابھی میں مسز آفریدی کو گلنار کر ہی رہا تھا کہ (شاید میرے بوسوں میں رنگوں کے خزانے تھے / وہ صورت افسردہ گلنار نظر آئی۔ دیکھو میری غزل) پہلے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا، “سلیم بھائی! دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جائیے۔ “وہ اندر آ گئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے۔ اس عرصے میں مسز آفریدی کا رنگ گلابی سے زرد ہو چکا تھا، جیسے کسی نے چہرے پر ہلدی مل دی ہو۔ سلیم خاں انھیں اور وہ سلیم بھائی کو جانتی تھیں۔ آخر کو ہم ایک ہی کنبے کے لوگ تھے نا! پان سات منٹ تک مکمل نہیں، مکمل جیسی خاموشی طاری رہی، ممکن ہے موسم پر کوئی تبادل? خیال ہوا ہو (رستے میں کسی روز اگر مل بھی گئے وہ /ہنستے ہوئے موسم کی کوئی بات کریں گے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر)۔

ان بے درد ساعتوں میں مسز آفریدی کی شکایتی اور میری ندامتی نگاہیں کئی بار ملیں۔ سلیم بھائی سے رخصتی لے کر وہ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ (وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے …یہ مشہور شاعر اور نیو تھیٹر ز کلکتہ کے نغمہ نگار آرزو لکھنوی کا مصرع ہے۔ میں اپنے قاری سے گذارش کروں گا کہ وہ “جلد” کی جگہ “کبھی ” پڑھے )۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سلیم خاں اور میں ریڈیو کے لیے نکلے مگر رکشے کا رخ وہ جہانگیر روڈ پر اپنے گھر کی طرف مڑوا کر اتر گئے۔ میں ان کے کمرے میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنی شیروانی اتاری اور شمیم کو آواز دی۔ وہ آیا اور مجھے دیکھ کر ٹھٹکا (کوئی دس دن سے ہماری بول چال بند تھی)۔ اب دونوں بھائیوں کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کو قلم بند کیے دیتا ہوں :

سلیم: ساقی سے تمھاری شکایت غلط ہے۔ مسز so and so خود اس کے گھر آتی جاتی رہتی ہیں۔

شمیم: ساقی جھوٹ بولتا ہے۔ خود مسزso and so  نے بتایا کہ وہ ساقی سے سخت نفرت کرتی ہیں۔

سلیم: بیٹے ! آج میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ وہ ساقی سے ملنے اس کے گھر آتی ہیں۔

شمیم: آپ نے خود اپنی آنکھوں سے …؟

سلیم: ہاں !

شمیم: کب؟

سلیم: ابھی ایک گھنٹے پہلے۔

شمیم: تو کیا صبح کو آپ دست گیر گئے تھے ؟

سلیم: ہاں !اپنے ذہن سے شک کو مٹانے۔

بھائیوں میں گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ شمیم نے زور زور سے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کیا۔ آپا، “ہائے میرا بیٹا ہائے میرا شمیم” کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں بڑا سراسیمہ ہوا۔

(I felt unwanted, and went out – Auden)

[“آپ بیتی /پاپ بیتی”، اکادمی بازیافت، کراچی، جنوری 2008]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5