وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے….


حمید جان بس اسٹینڈ پر اترا تو ہر طرف سے کیچڑ نے اس کا استقبال کیا، پہاڑی علاقوں میں پانی نشیب میں اتر جاتا ہے، لیکن اس چھوٹے سے سے حصے کو بس اسٹینڈ کے لیے ہم وار کیا گیا تھا، اطراف میں بے ڈھب دکانوں نے نکاسی آب کا رستہ روک رکھا تھا۔ طویل سفر کی تھکان، حمید جان کے جسم سے لڑھکتی ہوئی، وہیں کہیں کیچڑ میں گم ہو گئی، وہ ایک مدت کے بعد گانو لوٹ رہا تھا، جہاں اس کے بچے، اس کی بیوی، ماں باپ، رشتے دار، دوست یار سبھی تھے۔ ابھی کچھ سفر باقی ہے، یہاں سے پندرہ سولہ کلومیٹر دور اس کا گانو ہے۔ پرانی مگر مضبوط گاڑیوں میں کچی سڑک کا سفر۔ حمید جان نسوار لینے کے لیے، ایک واقف کار کی دکان پر ٹھیرا۔

حمید جان، تم؟ کدھر سے آرہے ہو؟ گانو سے یا شہر سے؟
بے تابی سے پوچھا گیا یہ سوال، حمید جان کے لیے غیر متوقع نہ تھا، لیکن لہجے میں چھپا کچھ، حمید جان کے بدن پر کیڑوں کی طرح رینگنے لگا، تجسس نے سر اٹھا کر پوچھا، کیوں، کیا ہوا؟ میں شہر سے آرہا ہوں۔

اوہ! واقف کار کے منہ سے جوں سسکی نکلی ہو، الفاظ اس کے پاس سے گم ہوچکے تھے۔ حمید جان نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پوچھا، کیا ہوا، خیر تو ہے؟
خیر ہی ہوگی، خیر ہی ہوگی! سنا ہے، رات تمھارے گانو پر حملہ ہوا ہے، جاسوس طیاروں نے بم باری کی ہے۔

حمید جان ہلدی ہوگیا۔ کیا؟ سوکھے حلق سے نکلا یہ لفظ صحیح طرح ادا نہ ہوا۔ اس نے حلق تر کرتے ہوے پوچھا، تمھیں کس نے بتایا؟
کچھ زخمی ادھر اسپتال میں لائے گئے ہیں، پتا چلا ہے، مدرسے پر حملہ ہوا تھا، پچیس تیس لوگ مارے گئے ہیں، خدا غارت کرے، امریکا کو، اور اس کے ساتھیوں کو۔

نسوار فروش کچھ اور بھی کہتا، لیکن اتنا صبر، حمید جان کہاں سے لاتا! اس کے قدم، اسے اڑاتے ہوے اڈے پر لے آے، جہاں سے اس کے گانو کی گاڑی جاتی تھی، اڈا خالی تھا۔ حمید نے کھوکھے والے سے، لاری کے بارے استفسار کیا، پتا چلا، گانو سے کوئی گاڑی، ابھی تک اڈے پر نہیں آئی۔ یہاں بھی لوگ، ہوائی حملے سے متعلق، اپنی اپنی اڑارہے تھے، کسی کے پاس تفصیل نہیں تھی، محض قیاس آرائیاں تھیں۔ جسے جتنا کم معلوم تھا، وہ اتنا ہی زیادہ بتارہا تھا۔ حمید جان پیدل ہی گھر کی طرف چل نکلا، اس امید پر کہ گانو جانے والی کسی بھی گاڑی سے لفٹ لے لے گا، نہیں تو دوڈھائی گھنٹوں میں، وہاں جا پہنچے گا۔ جب گانو کی سڑک نہیں بنی تھی، تو لوگ پیدل ہی تو جاتے تھے۔

علاقہ غیر کا حمید جان، شہر میں مالی کا کام کرتا تھا۔ جب وہ شہر مزدوری کے لیے گیا تو شروع شروع میں ہر طرح کے کام کیے، برتن دھونے کا، ٹیبل مینی کی، بھٹے پر مزدوری کی، لیکن اسے سب سے زیادہ مزہ باغ بانی میں آیا۔ زمین نرم کرکے بیج لگانا، انتظار، پھر یہ دیکھنا، کہ کیسے ایک نرم و نازک پودا، دھرتی کا سینہ چیر کے سر باہر نکالتا ہے۔ کبھی کبھار وہ سوچا کرتا، کہ پودے میں اتنی طاقت کہاں سے آجاتی ہے، وہ تار، جسے دو انگلیوں کی مدد سے باآسانی مسلا جاسکتا ہے، مٹی کے بدن میں اپنے پنجے گاڑ کر، بالآخر اتنی مضبوط ہوجاتی ہے، کہ پھل پھول دینے لگے؟ کار آمد پودوں کے ساتھ ساتھ، جھاڑ جھنکار بھی نکل آتا ہے، مالی کے فرایض میں ہے، کہ وہ گوڈی کرتا رہے، فالتو جڑی بوٹیوں کو نکال باہر کرے، تاکہ پھل آور درخت زمین سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کریں، باغ بان نے غفلت برتی ہو، توبدنما جھاڑیاں بڑھ کر، پھولوں کے حسن کو گہنادیتی ہیں، اگر اس وقت زہریلی جھاڑیوں کو نکالنے کی کوشش کی جاے، تو یقینا پھولوں کا چہرہ بھی داغ دار ہوگا، ایمان دار مالی، وقتی ہریالی کے لیے ایسے پودوں کی پرورش نہیں کرتا۔

حمید جان کو سولہ کلومیٹر کا فاصلہ، کئی سو کلومیٹر کا محسوس ہورہا تھا، گو کہ اس کے قدم بہت تیز اٹھ رہے تھے، مگر اسے لگ رہا تھا، وہ کسی ڈراونے خواب میں بھاگ رہا ہے، جس میں جتنے بھی تیز قدم بڑھاو، آدمی وہیں کھڑا ہوتا ہے، جہاں سے چلا ہو۔ اتفاق تھا، کہ اس دوران کوئی گاڑی اس کے گانو جاتی نہ دکھائی دی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں، کہ حمید جان کو اپنے گانو، اپنے وطن سے بہت محبت تھی۔ وطن کیا ہے؟ مٹی؟ یا اس میں سانس لینے والے لوگ، جو دھرتی کے سینے میں، اپنے پنجے گاڑ کر، اپنی طاقت کے مطابق، اپنا قد بلند کرتے ہیں؟

حمید جان کا ذہن ان باتوں کو سوچنے کے لیے نہ تھا، لیکن وہ یہ ضرور سوچ رہا تھا، کہ اس کے علاقے میں دہشت گردی کے سرکنڈے، خطرناک حد تک پھیل چکے ہیں، اگر مالی بروقت ان کی بیخ کنی کرتا، تو معصوم پھولوں کو، باغ بان کی غفلت کی سزا نہ ملتی۔ حمید جان نے یہ بھی سن رکھا، کہ دانستہ طور پر، ان سرکنڈوں کی پرورش کی گئی تھی، جگہ جگہ پر ان کی نرسریاں لگائی گئیں، تاکہ معقول منافع کمایا جاسکے، پھر وہ وقت آیا کہ یہ کانٹے اپنے ہی دامن سے الجھنے لگے، یہ گوارا نہ ہوا۔ اب جس بے دردی سے ان کا قلع قمع کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے کلیاں بھی جھلس رہی ہیں، کلیاں جھلس جائیں، تو پودوں پر صرف خار ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

وہ اخبار نہیں پڑھ سکتا تھا، لیکن آے روز، ٹیلے ویڑن چینلز سے بری بری خبریں سننے کو ملتی تھیں، کہیں بم دھماکے، کہیں فایرنگ، کہیں ممکنہ دپشت گردی کی دہشت ناک خبریں بھی آ جاتیں۔ مذہبی جلوس ہوں، امن کے جرگے ہوں، مسجدیں ہوں یا حمام کی دکانیں یا پھر لڑکیوں کے اسکول، کوءسرکاری عمارت ہو، یا پرہجوم بازار، سبھی مراکز خطروں کے مقام تھے، کوءجگہ محفوظ نہیں رہی تھی، اس جلتے ہوے باغ کا کوئی محافظ نہیں تھا، جو محافظ ہونے کے دعوے دار تھے، وہ محض تسلیاں دیا کرتے تھے، کہ آیندہ ایسی واردات کی اجازت نہیں دی جاے گی، ہم پرزور مذمت کرتے ہیں، دہشت گروں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جاے گا، وغیرہ۔ ہر بیان کے بعد محافظ اپنے گرد حصار کو اور مضبوط کرلیتے، کہیں اس آگ کی حرارت، ان کے بدن کو نہ چھولے، اس حصار کے اندر انھیں سب اچھا دکھائی دیتا۔ عوام محسوس کرتے، کہ ان کا لہو پینے کے لیے، تو حکومت نام کی کوئی چیز ہے، لیکن ان کی حفاظت کے لیے کوئی موجود نہیں۔ قبائلی علاقوں میں زمین پر دہشت گردوں کا راج تھا اور آسمان پر ان لوگوں کا، جو دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر، دہشت پھیلاتے تھے۔ جاسوس طیارے، جنھیں ڈرون کا نام دیا جاتا ہے، گانو کے گانو مٹاکر چلے جاتے۔ عجب نہیں، کہ مرنے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہوتی۔

حمید جان کے گانو پہنچتے، سورج بادلوں سے جنگ جیت چکا تھا۔ اس کا گانو، وادی کے بیچ و بیچ تھا، جیسے پیالے کی تہ میں مکئی کے دانے۔ دور سے اسے مکئی کے کچھ دانے جلے ہوے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بھاگنے لگا، یہ سوچے بغیر کہ اترائی پر بھاگنا جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ، جو اپنی مدد آپ کے تحت، امدادی کارروائی میں مصروف تھے، حمید جان کی طرف متوجہ ہوے، اس سے پہلے، کہ حمید ان سے سوال کرتا، ان کی تسلیاں، ان کے آنسو، ان کے گلے ملنے کے انداز، جوابات کے روپ دھارچکے تھے۔ اپنوں کی بانھوں میں آکر، حمید کی ٹانگوں نے، اس کا وزن اٹھانے سے انکار کردیا، وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔ حمید جان کے دس سالہ بیٹے کے سوا، گھر کا کوئی فرد زندہ نہ بچا تھا۔ بوڑھے ماں باپ، محبوب بیوی، آٹھ سالہ بیٹا، اور تیرہ سالہ بیٹی، اس دہشت گردی کی نذر ہوگئے تھے۔

دنیا اسے دہشت گردوں کے خلاف کام یاب حملہ ہی تصور کرے، لیکن متاثرین کی نظر میں یہ دہشت گردی تھی۔ حمید کا دس سالہ بیٹا، اس لیے بچ گیا، کہ اس رات وہ پھپھو کے یہاں سورہا تھا، جس کا گھر اس حملے سے محفوظ رہا تھا۔ ایک آگ وہ تھی، جو پچھلی رات اس گانو پر برساءگئی تھی، وہ بجھ چکی تھی۔ دوسری آگ وہ ہے، جو اہل دیہ کے سینوں میں بھڑک رہی ہے، بدلے کی آگ، اس آگ نے ابھی اور گھر جلانے ہیں۔ حمید جان جیسا سیدھا سادا مالی بھی جانتا تھا، آگ کے بیج لگاکر، امن کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی۔ وہ اپنے بیٹے کو گلے لگاکر خوب رویا، حمید جان کا خیال تھا، کہ اس کا بیٹا نہ بچتا، تو شاید وہ بھی نہ جی پاتا، لیکن یہ اس کا خیال ہی تھا، کئی ایسے بھی تھے، جن کا کوئی نہیں بچا تھا، وہ جی رہے تھے۔

کم از کم ان کا شمار زندوں میں کیا جاتا تھا۔ حمید جان نے پہلی رات ہی فیصلہ کرلیا تھا، کہ وہ اپنی بچ جانے والی پونجی کو، اپنے ساتھ شہر لے جائے گا۔ اس کی بہن جو اسی کی طرح دکھی تھی، اس نے احتجاج کیا، کہ حمید شہر کا خواب بھلا کر، اپنے باپ داد کے ترکے کی فکر کرے، لیکن حمید کو فکر تھی، تو دس سالہ پودے کی، جس کے لیے یہ زمین سازگار نہ تھی۔ حمید جان کا فیصلہ کوئی راز نہ تھا، جو چھپا رہتا، اگلے روز ان لوگوں کے، کچھ نمائندے حمید کے پاس آئے، جنھیں سرکار دہشت گرد کہتی ہے۔ اسے ایس روایات یاد دلائی گئیں، جو خون کا بدلہ خون سے متعلق تھیں، بزدل اور بے غیرت کہا گیا۔ حمید خود حیران تھا، کہ عفوودرگزر اور تقدیر پر شاکر ہوجانے کا ننھا پودا، کیوں کر روایات کی زمین کا سخت سینہ چیر کر باہر نکل آیا ہے؟ مالی کی دوربین نگاہوں نے جان لیا تھا، عفو کے پودے پر پھول کھلیں گے، اس کی حفاظت ضروری ہے، اس کی آب یاری فرض ہے۔ دودن اور گزرے حمید صبح کاذب کے وقت، اپنے بیٹے کو لے کر، شہر کی طرف روانہ ہوا۔ اس ڈر سے کہ کہیں روکنے والے، اس کا راستہ نہ روکیں، روشنی پھیلنے تک، حمید اور اس کا بیٹا، گانو کی حدود سے بہت دور نکل چکے تھے۔ احتیاطا انھوں نے گانو کی سڑک سے ہٹ کر سفر کیا تھا۔ جہاں اس کے بیٹے کو چلنے میں دشواری ہوتی، حمید اسے گود میں اٹھا لیتا، یا پھر کندھے پر بٹھا کر چلنے لگتا۔

جتنا دشوار راستہ تھا، اس سے کہیں زیادہ الجھے سوالات اس کا بیٹا کرتا۔ ہم گانو چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں؟ کیا شہر میں، اس کی ماں، اس کا انتظار کررہی ہوگی؟ کیا شہر پر آسمان سے بم نہیں گراے جاتے؟ حمید اپنے تئیں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا، ہر سوال کا جواب پرامید دیتا، تاکہ بچے کے ذہن پر برا اثر نہ پڑے۔ اس وقت وہ سستانے کو رکے تھے۔ بچے نے پوچھا، بابا، ہم گانو واپس کب جائیں گے؟ حمید کے پاس کوئی مناسب جواب نہ تھا، وہ یہ نہیں کہنا چاہتا تھا، کہ جب یہاں امن ہوجاے گا، ہم لوٹ آئیں گے، کیوں کہ جب امن کی بات آئے گی، تو جنگ کے بارے میں بھی سمجھانا پڑے گا، وہ اچھی اچھی باتیں کرنا چاہتا تھا۔ حمید کی آنکھیں جواب کے لیے، لفظ تلاش کر رہی تھیں، اس کا دھیان، پہاڑوں پر اگے نونہالوں کی طرف گیا، جنھیں کل کو تن آور درخت بننا تھا۔ حمید کو فورا جواب سوجھ گیا، بیٹا ہم اس وقت گانو لوٹ آئیں گے، جب یہ ننھے پودے بڑھ کر درخت بن جائیں گے، بالکل اس درخت کی طرح۔ اس نے ایک دیو قامت درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوے کہا۔

بچہ بلندوبالا درخت کو حسرت سے تکنے لگا اور کہا، بابا، انھیں درخت بنتے تو بہت وقت لگے گا، تب تک تو میں بوڑھا ہوجاوں گا۔ حمید جان اس کے معصوم شکوے پر بے ساختہ ہنسنے لگا، اسی لمحے ایک ٹیس بھی محسوس کی، جس نے اس کی آنکھیں نم کردیں۔ حمید جان جانتا تھا، وہ واپس آنے کے لیے نہیں جارہا، یہ جنگ کبھی ختم ہوگی، یا نہیں؟ ہوگی! یہ جنگ ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہوگی۔ اس کے من میں، امید کے ننھے پودے نے سر اٹھایا، وہ بیٹے کو لے کر شہر آگیا۔ نرسری کے احاطے میں، پکی اینٹوں سے بنا خستہ مکان، اس کے بیٹے کو گانو کے گھر ہی کی طرح لگا، اس کے سوالات ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ حمید کبھی کبھی چڑجاتا، لیکن تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتا۔ بچے کا چہرہ مرجھاگیا تھا، جیسے پودے کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر، دوسری جگہ لگایا جاے، تو وہ ڈھیلا پڑجاتا ہے۔ نرسری کے اطراف میں بلندوبالا درخت بھی تھے۔ حمید نے دیکھا کہ اس کا بیٹا، ان درختوں کو چپ چاپ کھڑا، دیکھتا رہتا ہے۔ کیا سوچتا ہے؟ باپ نے کبھی سوال نہ کیا۔

شہر میں آئے بیسواں روز تھا، حمید پنیری نکال کر گملوں میں منتقل کررہا تھا، اتنے میں عصر کی اذان ہونے لگی، یہ سوچ کر کام ادھورا چھوڑدیا، کہ باقی کا کام نماز کے بعد کرے گا۔ جونہی امام صاحب نے، تکبیر کے لیے، اللہ اکبر کہا، ایک زور دار دھماکا ہوا، پندرہ نمازی شدید زخمی ہوے، تین نے بعد میں دم توڑدیا، سات نمازی موقع ہی پر شہید ہوگئے، ان میں سے ایک امید کے فرقے سے تعلق رکھنے والا حمید جان بھی تھا۔ اسی وقت، اس کا بیٹا، نرسری کے اطراف میں لگے، اونچے اونچے درختوں کے قدموں میں کھڑا، ان کی اونچائی دیکھ رہا تھا۔ اسے امید تھی، ایک دن وہ نونہال بھی قدآور درخت بن جائین گے، جنھیں اس نے، گانو سے شہر آتے ہوے، رستے میں دیکھا تھا۔ تب وہ باپ کے ساتھ، اپنے گانو لوٹ جاے گا، وہ دن ضرور آئے گا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments