تنزانیہ نامی نشہ ڈانس پارٹیوں سے طلبا تک پہنچ گیا


تریاق،کرسٹل،آئس،ایکس ٹی سی کیپسول اور تنزانیہ نشہ ایران سے اسمگل ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

تریاق،کرسٹل،آئس،ایکس ٹی سی کیپسول اور تنزانیہ نشہ ایران سے اسمگل ہورہا ہے۔

افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ نہ رک سکی، مہلک نشے شہریوں کی رگوںمیں پہنچنے لگے لیکن نشے کے خلاف قانون21سال پرانا ہونے کے باعث نارکوٹکس اور انسدادی افسران کے لیے الجھن کا باعث بن گیاہے۔

حالیہ دنوں کے دوران کراچی میں (تنزانیہ) نامی نشے کا استعمال تیزی سے بڑھنے لگا ہے جبکہ دوسری جانب ڈانس پارٹیوں کے شوقین نوجوانوں میں بھی ڈرگ مافیا نے (XTC) ایکس ٹی سی کیپسول فروخت کرنا شروع کردیے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈرگ مافیا کے کارندے ڈیفنس ، کلفٹن، بہادرآباد، طارق روڈ ، نارتھ ناظم آباد ، گلبرگ گلشن اقبال، بلوچ کالونی میں اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے باہر طالبعلم گاہگوں کو ہر نشہ فروخت کررہے ہیں، ایکسائز اور پولیس کے ذمے دار ذرائع اور نشہ استعمال کرنے والوں سے حاصل کرنے والی معلومات کے مطابق اس وقت ’’آئس‘‘ نشے کے بعد ’’تنزانیہ‘‘ نامی مہلک نشہ انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے یہ نشہ چینی کے دانوں کی شکل نما ہوتا ہے جسے لوہے کی گرم راڈ یا سیخ سے داغ کر دھوئیں کو کھینچ کر لیا جاتا ہے اس وقت یہ نشہ آئس ، تریاق، ہیروئن اور کرسٹل سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

تنزانیہ نشہ 4 لاکھ سے 10لاکھ روپے فی کلو سے زائد مالیت تک معیار کے مطابق فروخت کیا جارہا ہے نشہ کرنے والوں کے مطابق تنزانیہ نامی مہلک نشہ کرنے سے بھوک ختم ہوجاتی ہے اور بھوک کا احساس تک نہیں رہتا اور نشہ کرنے والے افراد بے سدھ ہوجاتے ہیں جبکہ آئس کا نشہ کرنے والے عادی شخص کی نیند اڑجاتی ہے اور کئی کئی راتوں تک جاگتا رہتا ہے ڈرگ مافیا نے شہر کے پوش علاقوں میں ڈانس پارٹیاں کرانے والے آرگنائزرز کے ذریعے ڈانس پارٹیوں میں شامل ہونے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو (XTC) فی کیپسول 2 ہزار سے 4 ہزار تک فروخت کررہے ہیں۔

اس حوالے سے نجی اسپتال کے سینئر ڈاکٹر محمد منیر نے بتایا کہ یہ کیپسول پاکستان میں ممنوع ہے اس کو اسمگل کرکے پاکستان میں لایا جارہا ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کیپسول کو استعمال کرنے والے افراد کی وقتی طور پر جسمانی طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن اس کے کھانے کے بعد ہوا نہیں لگنی چاہیے جب تک ہوا نہیں لگے گی اس کیپسول کا نشہ برقرار رہتا ہے ہوا لگتے ہی اس کیپسول کا اثر ختم ہوجاتا ہے اس حوالے سے متعلقہ ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق تریاق، کرسٹل ، آئس ، ایکس ٹی سی کیپسول اور تنزانیہ جیسے نشے ایران سے جبکہ چرس ، افیون اور ہیروئن افغانستان سے اسمگل ہو کر آتے ہیں۔

ایکسائز نارکوٹکس کے ذمے دار افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایا کہ اس وقت ملک میں نئے نئے نشے آرہے ہیں لیکن ہمارے پاس قانون وہی21 سال پرانا ہے جو بھنگ، چرس، افیون، ہیروئن ، کچی شراب اور شراب کے لیے موجود ہے جبکہ مذکورہ نشے اتنے مہلک بھی نہیں اور ان کی سزائیں بھی اتنی سخت نہیں ہے۔

افسر نے بتایاکہ ایکسائز نارکوٹکس جب کسی آئس فروش یا پینے والے عادی شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرکے موقف اختیار کرتی ہے کہ ملزم آئس نامی نشہ استعمال یا فروخت کرتا ہے تو قانون کی کتابوں میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ آئس بھی کوئی نشہ ہے یا اس پر بھی کوئی دفعات لگتی ہیں۔

ایکسائز افسر کے مطابق نارکوٹکس قانون میں چرس ، افیون ، بھنگ ، ہیروئن کے لیے تو دفعات موجود ہیں لیکن اس کے بعد آنے والے جدید دور میں جدید نشوں کے متعلق قانون خاموش ہے جس کے لیے مجبوراً ان نشوں کے لیے بھی پرانے نشوں کی دفعات کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تاہم ان مقدمات میں ملزمان کے وکیل یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ آئس کی روک کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھنگ ، افیون ، چرس ، کچی شراب جیسے نشے تھے لیکن 1980کی دہائی میں ہیروئن آئی جس نے پاکستانیوں کی رگوں میں ناسور بھرنا شروع کردیا اور اب تو انتہائی مہلک نئے نشے متعارف ہورہے ہیں جو نشہ کرنے والوں کو مزید متاثر اور مفلوج کررہے ہیں۔ ان نشوں میں آئس، کرسٹل اور اب تنزانیہ نامی نشہ ظاہر ہوا ہے جو کراچی اور دیگر شہروں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

نارکوٹکس کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ ایسے مہلک نشے کی روک تھام کے لیے سخت سزا اور قانون کی اشد ضرورت ہے تاہم متعلقہ اداروں کی مجبوری، غفلت یا کالی بھیڑوں کے باعث ڈرگ مافیا نے شہر کے نوجوان طبقے کو مہلک نشہ آئس کے بعد تیزی سے مقبولیت پانے والا نیا نشہ ’’ تنزانیہ‘‘ کا عادی بنانا شروع کردیا ہے کراچی پولیس ،ایکسائز، اینٹی نارکوٹکس اور دیگر متعلقہ اداروں کی مجرمانہ خاموشی ڈرگ مافیا سے ملی بھگت ظاہر کرتی ہے۔

ملک دشمن ڈرگ مافیا نے سوچی سمجھی سازش کے تحت شہر قائد میں نوجوانوں کو مہلک نشہ آئس میں تیزی سے مبتلا کرواکر نوجوان نسل کومزید تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے ملک دشمن عناصر کا سب سے بڑا نیٹ ورک اینٹی نارکوٹکس فورسزکی کالی بھیڑوں سے ملا ہوا ہے جبکہ دوسرا نیٹ ورک وہ ہے جو شہر کے مختلف مقامات پر منشیات فروشی کے گھناؤنے کاروبار سے منسلک ہے اور پولیس کے ساتھ تانے بانے رکھتا ہے جو نشہ کرنے والے افراد کو مہلک نشہ آوور چیزیں مہیا کرنے میں ایک بڑا کردار ادار کررہے ہیں۔

چرس ، گردہ ، افیون ، بھنگ ، ہیروئن اور تریاق  کے بعد ڈرگ مافیا نے نشہ ’’آئس‘‘ متعارف کرایا تھا جو شہر میں نشہ کرنے والے نوجوان طبقے میں کافی مقبول ہوا اور سیکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس نشے میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ مہلک نشہ ’’آئس‘‘ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ فی کلو فروخت کیا جارہا ہے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ’’تنزانیہ‘‘ نامی نشے کی لت میں زیادہ تر پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مبتلا ہیں۔

ڈیفنس ، کلفٹن ، بہادرآباد، طارق روڈ، نارتھ ناظم آباد،گلبرگ اور گلشن اقبال میں نشہ کرنے والے افراد کو منشیات فروشوں کی جانب سے ہوم ڈیلیوری کی سروس بھی دی جارہی ہے نشہ میں مبتلا افراد منشیات فروشوں کو موبائل فون نمبرز پر فون کرتے ہیں تو  وہ ان کی بتائی ہوئی جگہ پر تنزانیہ اور آئس نامی نشہ مارکیٹ کی قیمت سے مہنگی فروخت کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).