جموں کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کا کیا قضیہ ہے؟


کشمیر میں آرٹیکل پینتس اے کے بارے میں بہت شور وغوغا ہے۔ مگر کتنے کشمیری جانتے ہیں کہ یہ آرٹیکل کیسے معرض وجود میں آیا تھا ؟ کیا ان کو اس بات کا علم ہے کہ اس آرٹیکل کو ہندوستانی آئین کے اندر سمونا اور اس کا اطلاق کتنا کٹھن کام تھا ؟ پاکستان اور بھارت میں بھی میرے بہت سے قارئین اس آرٹیکل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جموں کشمیر کے لوگ اس آرٹیکل کو ختم کرنے کی بھارتی کوشش کے خلاف کیوں سڑکوں پر نکل آئے ہیں؟

اکتوبر 1950 میں بھارت کی قانون ساز اسمبلی نے یہ قرار دیا کہ ریاست جموں کشمیر میں بھارت کا دائرہ اختیار صرف دفاع، خارجہ اور مواصلات تک محدود رہے گا۔ 1950 میں جب بھارت نے ریپبلک کی شکل اختیار کر لی، تو اسی آئینی شق کے تحت آرٹیکل تین سو ستر بھارتی آئین میں شامل کرنا ممکن ہوا، جس نے بھارتی یونین کے اندر ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کو حیثیت کو تسلیم کیا۔ آرٹیکل تین سو ستر یہ قرار دیتا ہے کہ نیو دہلی خارجہ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں میں ریاست جموں و کشمیر کی رائے سے مناسب قانون سازی کر سکتی ہے۔ اور دوسرے تمام معامالات میں ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔

1952ء میں ریاست جموں کشمیر اور بھارت کے وفود کے درمیان خود مختاری کے سوال پر سنجیدہ مذاکرات ہوئے۔ ریاست کشمیر کے دفدکی نمائدگی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کر رہے تھے، اور بھارتی وفد کی نمائدگی پنڈت نہرو کر رہے تھے ۔ دونوں وفود کے درمیان طویل مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ دلی ہوا، جس نے ریاست جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کیا۔ اس سلسلے میں گیارہ اگست 1952ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے وضاحت کی کہ ان کا بنیادی مقصد ایک طرف ریاستی اداروں کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارت کا حصول ہے، اور دوسری طرف ہندوستان کے ایک یونٹ کے طور پر اپنے فرائض منصبی سے عہدہ براہ ہونا ہے۔ اس موقع پر ریاست جموں کشمیر کے نمائدگان نے اپنے زرعی اصلاحات کے پروگرام میں رد و بدل سے انکار کر دیا، جس کے تحت ریاست جموں کشمیر کو جاگیرداروں سے بلامعاضہ جاگیر یں لینے کا اختیار تھا۔ یہاں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ بھارت کی دوسری ریاستوں کے بر عکس ریاست جموں کشمیر کے پاس تمام بقایا اختیارات پر قانون سازی کا اختیار ہوگا۔ خود مختاری کا مقصد سماجی اور معاشی تبدلی لانا تھا، اس لیے خود مختاری کو اصل شکل میں برقرار رکھنا ضروری تھا۔

یہ معاہدہ دہلی ہی تھا جس کے تحت آرٹیکل 35 اے کو بھارتی ائین کا حصہ بنانا ممکن ہوا، جو ریاستی قانون ساز اسمبلی کو ریاستی باشندوں کے حقوق اور مراعات کی حفاطت کے لیے قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ آرٹیکل پینتیس اے ریاست جموں و کشمیر اور بھارت کے درمیان رشتے کی بنیاد ہے۔ آرٹیکل میں کوئی یک طرفہ تبدیلی بھارتی آئین توڑنے کے مترادف ہو گی۔ اور ایسی کوئی کوشش ریاست کی بھارت کے ساتھ وابستگی کے سوال پر سنجیدہ سوال کھڑا کر دے گی۔ آرٹیکل پینتیس اے حکومت ہند اور ریاستی حکومت کے درمیان سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ یہ آج بھی اتنا ہی درست ہے جتنا آئین بناتے وقت تھا۔ اس میں تبدیلی کے لیے جو وجوہات پیش کی جا رہی ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ہے۔

جیسا کہ میں کئی اور فورمز پر یہ کہہ چکی ہوں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے سربراہوں کے درمیان درجنوں ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ نہرو لیاقت ملاقات سے لیکر واچپائی مشرف ملاقات تک ، اور اس سے پہلے سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان طویل مذاکرات ہوتے رہے لیکن حل کی طرف کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کبھی ان مذاکرات کا حصہ نہیں رہے۔ اس سارے عمل کی واحد اچھی خبر معاہدہ دہلی تھا، جو دو منتخب وزرائے اعظم ، نہرو اور عبداللہ کے درمیان ہوا۔ ایک پائیدار حل کی شروعات کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاہدہ دہلی کو اس کی اصل شکل میں تسلیم کیا جائے۔

(ترجمہ و تلخیص: بیرسٹر حمید خان بھاشانی)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan