آپ نے اختر مینگل کی تقریر ہی نہیں سنی


 آج عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کی باڈی لینگویج، حلف میں ان کی لڑکھڑاتی زبان اور گارڈ آف آنر میں ان کے قدموں کی جنبشیں زیر بحث ہیں۔ کل تک پارلیمنٹ میں ہونے والا ہنگامہ زیر بحث تھا۔ مسلم لیگ ن نے بھرپور احتجاج کیا، لیکن اس احتجاج میں شکست خوردگی کا عنصر غالب تھا۔

اگر یہی احتجاج اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر کیا جاتا، Hacklingجاری رہتی اور اسی بیگ گراؤنڈ میوزک کے ساتھ نومنتخب وزیر اعظم اپنی تقریر مکمل کرلیتے تو اتنی بدمزگی نہ ہوتی۔ رہی سہی کسر حکومتی بینچوں نے پوری کردی، وہ نہیں چاہتے تھے شہباز شریف کی تقریر سکون سے ہوجائے۔

چھوٹے میاں صاحب کی تقریر الا ماشااللہ اتنی طویل اور بور تھی کہ عین ممکن ہے، کوئی نون لیگی ان کی تقریر رکوانے کے لیے از خود عمران خان کے خلاف زیادہ گلا پھاڑ کر نعرے لگانا شروع کردیا۔ اب تشریف لاتے ہیں چیرمین بلاول بھٹو زرداری جن کی مدبرانہ تقریر، نپے تلے انداز خطاب اور کاٹ دار فقروں نے کئی فین پیدا کرلیے ہیں۔

شہباز شریف کو ان کی تقریر کا وقت ختم ہونے کا احساس بھی اسی جوان نے دلوایا، انتخابات میں شہید ہونے والوں کو یاد کیا، اپنے پارٹی کی مشکلات کو بڑے سلیقے سے بیان کیا۔ اکثر تبصرہ نگاروں کی بات سنی جائے تو پارلیمان میں ہونے والے تقریری مقابلے کے فاتح بلاول بھٹو رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریر بہت اچھی تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری اکثریت نے سردار اختر مینگل اور محسن داوڑ کی تقریر نہیں سنی، اسی لیے ہمیں بلاول کی خوب سجی سنوری اور بنی ٹھنی تقریر نے مسحور کررکھا ہے۔ بلاول کو سیاسی مدبر قرار دینے والے، اس کی تقریر کو شاید اب دنیا کی عظیم ترین تقریروں میں شامل کرنے کے لیے بھی ایک مہم کا آغاز کریں لیکن ایک بار ذرا اختر مینگل کی تقریر دل پر ہاتھ رکھ کر سنیے۔

ساڑھے انیس منٹ کی یہ تقریر پاکستان کی پوری سیاسی کلاس سے ایک ایسا سوال ہے، جس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں، شرمندہ ہونے کی رسم تو یہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ اختر مینگل نے فقرے بازی نہیں، انہوں نے اپنی قوم کے غم کی ترجمانی کی۔

اختر مینگل کے صرف ایک جملے کا بار یہ پورا پارلیمان مل کر نہیں اٹھا سکتا کہ ’’جب کسی کے چند ووٹ غائب ہوجاتے ہیں تو اس طرح کے احتجاج کیے جاتے ہیں، ان سے جاکر کوئی پوچھے جن کے بچے غائب ہوگئے ہیں۔‘‘ اختر مینگل نے پانچ ہزار لاپتا افراد کی فہرست اسپیکر کے حوالے کی۔

انہوں نے بتایا کہ فیڈرل سروسز میں اٹھارہ ہزار نشستیں خالی پڑی ہیں اور یہ فہرست بھی حکومت کے حوالے کی۔ اختر مینگل نے گوادر کی پیاس اور بلوچستان کے افلاس کی ایک درد انگیز تصویر ایوان کے سامنے رکھی۔ محسن داوڑ نے بھی اپنے لوگوں کا یہی غم بیان کیا۔

یہ سوال سلگتے ہوئے ضرور ہیں، انھیں اٹھانے والوں نے ایک بار پھر پاکستان کے آٗئین و قانون کے مطابق ہی ان کا جواب مانگا ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو اب یہ جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ اپنے ووٹوں کی گنتی پوری نہ ہونے پر چنگھاڑتی ن لیگ اور مسلسل تیسری بار سندھ میں برسراقتدار آنے والی پیپلز پارٹی ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔

ہاں ان کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے ایک باوقار تقریر ضرور کردی، جس کے سحر سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے ، کیوں کہ محسن داوڑ کے نام سے ہم واقف نہیں اور اختر مینگل کی تقریر ہم نے سنی نہیں۔
ویلڈن بلاول


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).